صومالیہ کے شہروں اور دیہی علاقوں میں ہر سال لڑکیوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد انفرادی اور اجتماعي جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ صومالیہ میں انفرادی اور اجتماعي جنسی زیادتیوں سمیت جنسی تشدد کے واقعات عام ہیں اور اکثر و پیشتر انہیں رپورٹ نہ کیے جانے کی بنا پر ان کی اصل تعداد کا تعین کرنا دشوار ہے۔
جنسی زیادتی کی کوشش میں مزاحمت کرنے والی اکثر خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض أوقات اپنی زندگی سے ہاتھ دھو نے پڑتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی صومالي سروس نے حال ہی میں بیلدوین کے قصبے کی 38 سالہ خاتون سے بات کی جو جنسی زیادتی کی کوشش کے دوران مزاحمت میں چاقو کے حملوں سے شديد زخمی ہو گئی تھی۔
خاتون نے جو دو بچوں کا ماں ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اپنی بکریوں کے لیے گھاس کاٹنے جا رہی تھی کہ وہاں ایک نامعلوم شخص نے اس پر جنسی حملہ کرنے کی کوشش کی۔ مزاحمت پر اس نے چاقو سے حملہ کر دیا ۔ اسے چاقو کے آٹھ زخم آئے اور وہ خون میں لت پت ہو گر بے ہوش ہوگئی اور حملہ آور موقع سے فرار ہوگیا۔
مقامی اسپتال کے ڈاکٹر حسن عمر سید نے بتایا کہ انہیں عورت کی جان بچانے کے لیے ایک بڑی سرجری کرنا پڑی۔
صومالیہ میں جنسی زیادتی کے واقعات کے عموماً خلاف مقدمہ درج نہیں کرایا جاتا کیونکہ ایسے واقعات کو معاشرے میں رسوائی اور بدنامی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ متاثرہ خواتین کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اس کے ذکر سے وہ معاشرے میں بدنام اور تنہا ہوجائیں گی۔ چنانچہ وہ پولیس، حتی ٰ کہ اپنے خاندان کے افراد تک کو خود پر ہونے والے ظلم سے آگاہ نہیں کرتیں۔
اس مہینے کے شروع میں وسطی صومالیہ میں حکام نے پانچ افراد کو دو لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔ یہ گرفتاری ملزموں کی جانب سے اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے نتیجے میں ہوئی۔
انسانی حقوق کے ایک بین الاقوامی گروپ ہیومن رائٹس واچ کی 2014 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں عشروں سے جاری لڑائیوں اور بدامنی سے انتظامی ادارے کمزور ہو گئے ہیں جس سے خواتین مزید کمزور اور آسان ہدف بن گئی ہیں۔