ریلوے کی بوگی میں سفر کے دوران اچانک کہیں سے آلو بھرے پراٹھوں اور آم کے اچار کی خوشبو آجائے تو بھوک چمک اٹھتی ہے۔
ایسے میں جن مسافروں کے پاس گھر سے لایا ہوا کھانا نہیں ہوتا وہ بھی اس خوشبو سے بھڑکتی بھوک کو مٹانے کے لئے کچھ نہ کچھ خرید ہی لیتے ہیں۔
اس پر پلیٹ فارم پر گاڑی رکی نہیں کہ ’’پکوڑے۔۔گرما گرم پکوڑے۔۔انڈے ۔۔گرم انڈے۔۔چائے۔۔چائے ۔۔چائے۔۔‘‘ کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہچکولے کھاتی ٹرین میں خود بھی ہلتے ہلتے کھانے، پینے کے مزے ہی کچھ اور ہیں۔
یہ وہ کلچر ہے جو ریلوے کے ہاتھوں پروان چڑھا ہے۔ ’عام آدمی کی سواری’ آج بھی اس کلچر سے ماضی کی سنہری یادوں کو صدائیں دیتی ہے۔ لیکن، آج شہر کے انگنت لوگ ایسے ہی جو اس کلچر سے واقف نہیں۔ بے شمار نوجوانوں نے کبھی ٹرین کا سفر کیا ہی نہیں۔
ناز، نخرے، پیسے کی فراوانی، وقت کی قلت، موسم کی سختیوں کا خوف، ٹرین لیٹ ہوجانے کا ڈر اور جانے کون کون سے عوامل ہیں جنہوں نے نئی نسل کوباپ دادؤں کے وقت سے چلے آرہے اس کلچر سے دور کر دیا ہے۔
مگر اب پاکستان ریلوے نے اس کلچر کو پھر سے لوگوں میں پھیلانے اور عام کرنے کا ذمہ اٹھایا ہے۔۔جو قابل تحسین ہے۔
اگر آپ بھی اس کلچر کو دیکھنے کے متمنی ہیں یا گئے برسوں کی بھولی بسری یادوں سے خود کو جوڑنا چاہتے ہیں تو آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع سٹی ریلوے اسٹیشن پر بنے ’کیفے بوگی‘ میں چلئے آیئے ۔۔ یہاں آپ کو دور سے ہی پاکستان ریلوے کے کارپوریٹ کلرز میں رنگی پانچ بوگیاں نظر آجائیں گی۔
یہ بوگیاں ایک متروکہ ریلوے لائن پر کھڑی ہیں۔ بوگیوں کو لاہور، ساہیوال اور ملتان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، جبکہ ایک بوگی سے کچن سروس جاری ہے۔
یہ وہی ڈبے ہیں جو کبھی لوگوں کو شہر شہر پہنچایا کرتے تھے مگر اب ریلوے کلچر کو فروغ دینے کی غرض سے ’کیفے بوگی‘ کا حصہ ہیں۔ ان سے برٹھس نکال دی گئی ہیں، تاکہ مسافر ان میں بیٹھ کر چائے، کولڈ ڈرنک، پیزا اور اس جیسے بہت سے کھانے پینے کے آئٹمز کا مزہ لے سکیں۔
پاکستان ریلویز نے ’کیفے بوگی‘ کو تین لاکھ روپے ماہانہ ٹھیکے پر فہیم جان اور سنیل ظفر کودیا ہوا ہے۔ فہیم جان کا کہنا ہے کہ ’بوگیاں پاکستان ریلویز نے فراہم کی ہیں، ان بوگیوں میں بیک وقت 30 افراد بیٹھ سکتے ہیں، جبکہ کیفے کے آگے پلیٹ فارم سے ملتے جھلتے پس منظر میں 40 افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر آپ کو ایسا ہی لگے گا جیسے آپ پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوں۔‘‘
وائس آف امریکہ کو کیفے میں موجود لوگوں نے بتا یا کہ کیفے کی رونقیں اصل میں رات کے وقت جوبن پر ہوتی ہیں، جب ہر طرف یہاں رنگ برنگی ایل ای ڈی لائٹس جلتی ہیں اور میوزک بھی بجتا رہتا ہے۔ یہاں آنے والوں کے لئے وائی فائی کی سہولت بھی بالکل مفت ہے جبکہ ریلوے پولیس کی بدولت فیملیز کو بھی تحفظ کا احساس رہتا ہے اور وہ رات گئے تک یہاں موجود رہتی ہیں۔‘‘