پاکستان میں اپوزیشن کی طرف سے آزادی مارچ کے حوالے سے حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے، دونوں اطراف سے رابطے برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
آزادی مارچ رکوانے کی حکومتی کوششوں کے سلسلے میں مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوا اورحکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے پرویز خٹک کی قیادت میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے اراکین سے اسلام آباد میں اکرم درانی کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دھرنے اور آزادی مارچ سے متعلق مطالبات پر غور کیا گیا۔
مذاکرات کے دو دور ہوئے۔ پہلے دور میں اپوزیشن کی جانب سے چار نکاتی ایجنڈا پیش کیا گیا جس میں وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ، فوج کی نگرانی کے بغیر نئے انتخابات ،اسلامی دفعات کا تحفظ اور سویلین اداروں کی بالادستی،اور اس کے ساتھ آزادی مارچ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کا مطالبہ شامل تھا۔
حکومتی کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر داخلہ پرویز خٹک نے ملاقات شروع ہوتے ہی رہبر کمیٹی کے اراکین کو واضح کر دیا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے کے علاوہ دیگر مطالبات کو نہ صرف سنا جائے گا بلکہ اُن کا بات چیت کے ذریعے حل بھی نکالا جائے گا۔
اپوزیشن کی رہبرکمیٹی کا مطالبہ تھا کہ آزادی مارچ کو ڈی چوک تک آنے کی اجازت دی جائے جب کہ حکومتی کمیٹی نے ہائی کورٹ کا فیصلہ دکھاتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق ڈی چوک پر احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومت پریڈ گراؤنڈ میں احتجاج کی اجازت دینے پر تیار ہے۔ جس پر اپوزیشن نے نرمی دکھاتے ہوئے جلسہ جناح ایونیو میں چائنہ چوک پر کرنے کا کہا، جس پر حکومت نے مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا۔
مذاکرات کے پہلے دور کے بعد دونوں کمیٹیوں کے ارکان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں حکومتی رکن پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ بڑے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی۔ ہم نے اپنی اپنی تجاویز ایک دوسرے کے سامنے پیش کیں اور ہم نے اپوزیشن کو لیڈر شپ سے مشاورت کے لیے کہا ہے۔
رہبر کمیٹی کے رہنما اکرم درانی کا کہنا تھا کہ حکومت کی سینئر قیادت آئی اور اچھے انداز میں مذاکرات ہوئے اور آپس میں کافی باتیں طے ک لی ہیں۔
رات دس بجے دوسرا سیشن شروع ہوا جس کے اختتام پر دونوں کمیٹیوں کے سربراہان نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی کی پیش کردہ تجاویز پر مشاورت کی گئی البتہ کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
رہبر کمیٹی کے کنونیئر کا کہنا تھا کہ آج مذاکرات کے 2 دور ہوئے، جس میں ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے البتہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہےگا۔ تاہم اس کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں رکھا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دو نشستیں ہونے کے باوجود ہم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے البتہ بات چیت کا عمل جاری رہے گا تاکہ معاملے کا کوئی حل نکل سکے۔
آزادی مارچ روکنے کے لیے قائم کردہ کمیٹی میں سربراہ پرویز خٹک، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر تعلیم شفقت محمود، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر شامل تھے۔ جب کہ اپوزیشن کی جانب سےجے یو آئی کے اکرم درانی، پیپلز پارٹی کے نیئر بخاری اور فرحت اللہ بابر، مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال اور ایاز صادق، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے میاں افتخار حسین، قومی وطن پارٹی کے ہاشم بابر، نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو اور جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) کے اویس نورانی نے مذاکرات میں حصہ لیا۔
اپوزیشن کا آزادی مارچ
جمعیت علمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمان نے 3 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لیں گے۔ آزادی مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حکومت جعلی مینڈیٹ سے وجود میں آئی ہے۔ ناجائز حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے ملکی معیشت ڈوب چکی ہے۔ مذہبی حوالے سے پاکستانی مسلمان کرب کا شکار ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو بقا کا سوال پیدا ہو گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاملے پر حکومت سے مفاہمت نہیں ہو گی۔ حکومت کو جانا ہو گا۔ اگر رکاوٹ ڈالی گئی تو پہلی، دوسری اور تیسری سکیم سمیت تمام فیصلے کیے ہوئے ہیں۔ ہمارا آزادی مارچ کی تاریخ میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ کوئی کہہ رہا ہے۔ میری گرفتاری ہوئی تو اس پر بھی حکمت عملی طے کر چکے ہیں۔
بعد ازاں 10 اکتوبر کو انہوں نے مارچ کی تاریخ بدلتے ہوئے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا آغاز قرار دیا اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پہنچنے کا اعلان کیا۔
حکومت نے 17 اکتوبر کو اس حوالے سے سات رکنی مذاکراتی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا لیکن یہ کمیٹی کوشش کرتی رہی لیکن مذاکرات کا باقاعدہ آغاز نہ ہو سکا اور 25 اکتوبر کو ہونے والے مذاکرات کے دونوں دور ناکام رہے ہیں۔
مذاکرات کی آئندہ تاریخ اور وقت کا ابھی کوئی اعلان نہیں کیا گیا جب کہ آزادی مارچ شروع ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔