پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان ایسے سیاسی رہنما کے پاس آیا ہے جو اس عہدے کی دوڑ میں بھی شامل نہیں تھے۔
وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے عبدالقیوم نیازی کی بطورِ وزیرِ اعظم نامزدگی کے بعد پاکستانی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے بدھ کو ووٹنگ ہوئی۔ تحریک انصاف کے عبدالقیوم نیازی 33 ووٹ لے کر وزیرِ اعظم منتخب ہوئے جن کے مدِ مقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری لطیف اکبر نے محض 15 ووٹ حاصل کیے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے 13 ویں وزیرِ اعظم منتخب ہونے والے سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیرِ اعظم عمران خان بھی چند روز قبل تک نہیں جانتے تھے۔
سترہ جولائی کو ایک انتخابی جلسے کے دوران جب عمران خان نے پرچی پر لکھا عبدالقیوم نیازی کا نام پڑھا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ "یہ نیازی یہاں کہاں آگئے، ہم نیازی ہر جگہ پھیل گئے ہیں۔"
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے امیدواروں کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے عمران خان سے قربت نہ ہونے کے باوجود قسمت کی دیوی عبدالقیوم نیازی پر مہربان ہوئی ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کے لیے سابق وزیرِ اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور معروف کاروباری شخصیت سردار تنویر الیاس مضبوط امیدوار تھے۔ دونوں امیدواروں کے درمیان پاکستانی کشمیر کے صدر مقام مظفرآباد میں گزشتہ کئی روز سے وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے کوششوں کا سلسلہ جاری تھا۔ بعدازاں بنی گالہ اس مقصد کے لیے اہم مقام بن گیا تھا جہاں ان امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان دونوں امیدواروں میں سے ایک کو صدر اور دوسرے کو وزیرِ اعظم بنانے کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن دونوں وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے مصر رہے۔
اس صورتِ حال کے نتیجے میں قرعہ فال ایک ایسی شخصیت کے نام نکلا جنہیں کشمیر کی سیاسی شخصیت تو کہا جاسکتا ہے لیکن وہ کسی طور پر وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل نہیں تھے۔
سردار عبدالقیوم نیازی کون ہیں؟
سردار عبدالقیوم نیازی کا تعلق پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر واقع گاؤں درہ شیر خان سے ہے۔ ان کا خاندانی نصب ضلع پونچھ کی تحصیل عباس پور کے دولی خاندان سے ہے جو مغل قوم کی ذیلی شاخ ہے۔ نیازی ان کا تخلص ہے جو حکومتی معاملات کی وجہ سے انہیں رکھنا پڑا۔
مظفر آباد کے سینئر صحافی نعیم احمد بتاتے ہیں کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں سردار عبدالقیوم نیازی پونچھ کی ضلع کونسل کے رکن تھے اور اس وقت مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبدالقیوم خان پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیر اعظم تھے۔ دونوں کا نام ایک ہونے کی وجہ سے ان کے اخباری بیانات اور سرکاری احکامات میں تمیز مشکل ہو جاتی تھی اور ضلع پونچھ کی انتظامیہ کئی مرتبہ ضلع کونسل کے رکن کے احکامات کو وزیرِ اعظم کے احکامات سمجھ کر ان پر عمل درآمد کر دیتی تھی۔
اس صورتِ حال پر اس وقت کے وزیرِ اعظم سردار عبدالقیوم نے انہیں اپنے نام کے ساتھ کوئی دوسرا نام منسلک کرنے کی تجویز دی اور یوں انہوں نے اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھنا شروع کر دیا۔
سردار عبدالقیوم کے نام کے ساتھ جڑا 'نیازی' ان کا خاندانی نام نہیں اور نہ ہی ان کے خاندان میں کوئی دوسرا شخص اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھتا ہے۔
سردار عبدالقیوم کی سیاسی زندگی
سردار عبد القیوم نیازی نے کم عمری میں ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 22 سال کی عمر میں سال 1982 میں ڈسٹرکٹ کونسلر ضلع پونچھ منتخب ہوئے۔
سال 2006 میں پہلی بار مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔ جس کے بعد سال 2006 سے 2011 تک وزیرِ مال، جیل خانہ جات کی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔
سال 2011 اور 2016 میں مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر ہی انتخابات میں حصہ لیا لیکن 2016 میں انتہائی کم ووٹوں سے الیکشن ہار گئے۔ انہوں نے انتخابی شکست کا معاملہ پارٹی قیادت کے سامنے اٹھایا اور کوئی خاص توجہ نہ ملنے پر اس معاملے کو عدالت میں چیلنج بھی کیا جو موجودہ انتخابات تک زیرِ التوا تھا۔
سردار عبدالقیوم کے اپنی جماعت کے ساتھ گلے شکوے بڑھتے گئے جس کے نتیجے میں انہوں نے پارٹی کو خیرباد کہتے ہوئے تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔
سردار عبد القیوم نیازی کا گاؤں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کنٹرول لائن کے عین سامنے ہے اور ماضی میں کئی بار ان کا اپنا گھر دونوں طرف سے کی جانے والی گولہ باری کی زد میں بھی آیا۔ لیکن وہ کبھی وہاں سے دوسری جگہ منتقل نہ ہوئے۔
ان کے بقول، "اگر میں بھی اپنا گھر چھوڑ کر چلا گیا تو یہاں رہنے والے بھی ہمت ہار جائیں گے۔"
انتخابات میں کامیابی اور اس کے بعد ہر حکومت سے ان کا مطالبہ رہا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے علاقوں میں رہنے والے افراد کو گولہ باری سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے گھروں کے ساتھ بنکر بنائے جائیں تاکہ وہاں رہنے والے اپنی جانیں بچا سکیں۔
اب وہ خود وزیرِ اعظم بن گئے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے مطالبے پر خود کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیں۔
نعیم احمد کہتے ہیں کہ سردار عبدالقیوم نیازی کی شہرت حلقے میں تمام لوگوں سے قربت رکھنے والے سیاست دان کی سی ہے جس کے لیے ہر خوشی اور غمی میں شامل ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام طور پر انتخابات برادری کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے اور اس حلقے میں ان کے کی برادری آبادی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ لیکن اپنے علاقے کے لوگوں کے کام کرانے اور رکھ رکھاؤ کی اچھی شہرت کی وجہ سے بڑے قبائل اور برادریوں سے ان کے قریبی رابطے ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں وہ اپنے حلقے میں 20 ہزار ووٹ لے کر بھی چند سو ووٹوں سے ہار گئے تھے لیکن حالیہ الیکشن میں انہوں نے 24 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
سردار عبد القیوم نیازی کے بڑے بھائی سردار غلام مصطفیٰ 1985 اور 1995 میں دو بار قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وہ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
کیا سردار عبدالقیوم کی نامزدگی میں روحانیت کار فرما ہے؟
پاکستان کے سوشل میڈیا پر سردار عبدالقیوم نیازی کی بطور وزیرِ اعظم نامزدگی پر حیرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔
وزیرِ اعظم کے نام کے اعلان سے چند روز قبل اسلام آباد کے بعض صحافیوں نے اطلاع دی تھی کہ ایک روحانی شخصیت نے عمران خان کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 13 یا 18 کو خوش بختی کا ہندسہ قرار دیا ہے اس معیار پر عبدالقیوم نیازی پورا اتر رہے تھے کیوں کہ ان کا حلقۂ انتخاب ایل اے 18 ہے۔
تاہم حکومت کی طرف سے ان اطلاعات کی تردید کی جا رہی ہے۔ وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سردار عبدالقیوم نیازی کی نامزدگی کا اعلان کیا اور انہیں مبارک باد دی۔
پنجاب حکومت کے ترجمان شہباز گل نے کہا کہ کشمیر کے مشکل ترین اور ایل او سی پر واقع حلقے سے منتخب عبدالقیوم نیازی بہادر کشمیری عوام کا بہتر نمائندہ ثابت ہوں گے اور امید ہے کہ وہ وزیرِ اعظم عمران خان کے وژن کے تحت کشمیری عوام کی فلاح کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔
انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں ان کے نیازی ہونے کے بارے میں بعض افراد کی تنقید کے جواب میں کہا تھا کہ "کچھ لوگ نیازی صاحب کے وزیرِ اعظم بننے پر قومیت پر مبنی تبصرے کر کے اپنی خفگی مٹا رہے ہیں۔ ایسے عناصر کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عبد القیوم صاحب قومیت کے اعتبار سے نیازی نہیں بلکہ نیازی ان کا شاعری کا تخلص ہے۔"