رسائی کے لنکس

عبداللہ عبداللہ بھارت کے دورے پر، خلیل زاد کی افغان صدر سے ملاقات


افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ (فائل فوٹو)
افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ (فائل فوٹو)

افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ چار روزہ دورے پر منگل کو بھارت پہنچ گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ افغان امن عمل میں بھارت کی حمایت حاصل کرنے اور بھارت کو طالبان سے مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

خیال رہے کہ امریکہ اور افغان حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے باوجود بھارت طالبان سے مذاکرات سے انکار کرتا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق عبداللہ عبداللہ کا دورۂ بھارت کابل کے ساتھ ساتھ نئی دہلی کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے کے دوران عبداللہ عبداللہ بین الافغان مذاکرات کی پیش رفت سے متعلق بھارتی حکام کو آگاہ کریں گے۔

بھارت کے دورے سے قبل عبداللہ عبداللہ نے پاکستان کا بھی تین روزہ دورہ کیا تھا اور پاکستانی حکام سے افغان امن عمل سمیت خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔

منگل کو نئی دہلی پہنچنے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹ میں عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ وہ بھارت میں قیام کے دوران بھارتی حکام سے افغان امن عمل اور باہمی دلچسپی کے اُمور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔

عبد اللہ عبد اللہ کے ترجمان فریدون خوازون نے دورے سے عین قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ اس دورے کا مقصد افغان امن عمل کے لیے حمایت حاصل کرنا اور علاقائی معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہے۔

عبداللہ عبداللہ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور وزارتِ خارجہ میں پاکستان، ایران اور افغانستان سے متعلق امور کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بھی عبداللہ عبداللہ کی ملاقات متوقع ہے۔

اس سے قبل امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور افغانستان کے جنگجو کمانڈر رشید دوستم بھی حال ہی میں نئی دہلی کا دورہ کر چکے ہیں۔

بھارت کے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی افغان پالیسی میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ وہ افغانستان میں سیاست دانوں کے تمام طبقات سے بات چیت کے حق میں ہے اور دہلی کی اس کی پالیسی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت نے بہت محتاط انداز میں اپنا مؤقف تبدیل کیا اور 12 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔

بھارت نے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ کو دوحہ بھیجا تھا اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اس تقریب سے ورچوئل خطاب کیا تھا۔ جے پی سنگھ نے دوحہ میں عبداللہ عبداللہ سے ملاقات بھی کی تھی۔

سابق سفارت کار پناک رنجن چکرورتی کہتے ہیں کہ بھارت کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ اگر افغانستان کی قیادت میں مذاکرات ہوتے ہیں اور کوئی حل نکلتا ہے تو وہ اس کی حمایت کرے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ بھارت کے مذاکرات کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیوں کہ بھارتی حکام نے تاحال اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح نہیں کی۔

رنجن چکرورتی نے کہا کہ بھارت افغان حکومت کی حمایت کرتا ہے اور جب وہاں کی حکومت خود طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے تو بھارت کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کیوں کہ ان کے بقول بہر حال طالبان بھی افغان ہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ کی بھارتی قیادت سے کیا بات ہوتی ہے اور کیا پیش رفت ہوتی ہے، اس پر نظر رکھنا ہوگی۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کے مؤقف میں نرمی آئی ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے بھارت کو کچھ یقین دہانی کرائی ہو گی اسی لیے بھارت نے بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان کی سابقہ اور موجودہ قیادت میں فرق ہے۔ حکومت یا خلافت کے قیام کے سلسلے میں ان کا جو بھی نظریہ ہو، لیکن اگر اقتدار میں ان کی شراکت ہوتی ہے تو وہ دنیا کے دیگر ملکوں سے بھی اپنے رشتے استوار کرنا چاہیں گے۔

دریں اثنا زلمے خلیل زاد نے پیر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے۔

ملاقات کے بعد اپنی مرحلہ وار ٹوئٹس میں خلیل زاد نے کہا کہ اُنہوں نے افغان صدر کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ افغان امن عمل کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغان فریقوں کو امن کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ اُن کے بقول افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG