بے نظیر بھٹو کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں شیام بھاٹیا، بروک ایلن، اینا سوورووا، لیبی ہیوز اور اقبال آخوند کی لکھی ہوئی سوانح عمریاں بھی شامل ہیں۔
تاہم، اس سال بے نظیر بھٹو کی ایک نئی سوانح عمری شائع ہوئی ہے، جس میں ایک تجربہ کار خاتون سیاستدان، عابدہ حسین نے بے نظیر کی زندگی اور اُن کی جدوجہد کو اپنے مشاہدے کی بنیاد پر پرکھتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔
اُن کی نئی کتاب ’اسپیشل اسٹار: بے نظیر بھٹو کی کہانی‘ ایک کہانی کی شکل میں لکھی گئی، جس میں اُنہوں نے بے نظیر کی ابتدائی زندگی، اُن کے والد اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ’’کے عدالتی قتل‘‘، بے نظیر کی پیپلز پارٹی کی قیادت، وزیر اعظم کی حیثیت سے اُن کے دونوں ادوار، اُن کا قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے کردار، اُن کی جلا وطنی کا دور، پرویز مشرف کی حکومت کے دوران مصنفہ اور بے نظیر کے رابطوں، مشرف کی حکومت کے خاتمے، بے نظیر کی وطن واپسی اور پھر اُن کی شہادت کے بارے میں تفصیلاً لکھا ہے۔ اس کے علاوہ عابدہ حسین نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر بےنظیر کو ایک بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے کردار کے حوالے سے بھی پرکھا ہے۔
کتاب کے دیباچے میں عابدہ حسین کہتی ہیں کہ شروع میں وہ سمجھتی تھیں کہ بے نظیر ہر قسم کی قابلیت سے عاری خاتون ہیں۔ تاہم، رفتہ رفتہ جب وہ اُنہیں سمجھنے لگیں تو وہ اُن کی مداح بن گئیں۔
جھنگ سے تعلق رکھنے والی عابدہ حسین کہتی ہیں کہ بے نظیر کی پُر اثر شخصیت کی کشش نے اُنہیں اُن کا گرویدہ بنا دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ بے نظیر ذہانت، قابلیت، دلیری، وقار اور حسن کا مجسمہ تھیں۔ اُن کے مطابق ’’بے نظیر یقیناً کسی منفرد ستارے کے زیر اثر پیدا ہوئی ہوں گی۔‘‘
اپنی کتاب میں متعدد بار عابدہ حسین نے لکھا ہے کہ جب اُن کی بے نظیر سے قربت ہوئی تو بے نظیر ہر نازک معاملے پر اُن سے مشورہ کرتی تھیں اور اُن کے مشوروں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ بے نظیر کو جب بھی کسی سیاسی اُلجھن کا سامنا ہوا تو اُنہوں نے ہمیشہ عابدہ حسین کو بلا کر مشورہ کیا۔
کتاب کے پہلے باب میں اُنہوں نے بے نظیر کی ہاروڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں زندگی کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ اُن کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی یہ خواہش تھی کہ بے نظیر بھی اُن کی طرح ہارورڈ کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں۔ لہذا، اُس وقت برطانیہ میں موجود پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ممتاز دولتانہ کی مدد سے بے نظیر کا داخلہ آکسفورڈ میں ہو گیا جہاں اُنہوں نے پولیٹکل سائینس، فلسفہ اور معاشیات جیسے مضامین کا انتخاب کیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے قدیمی فن تعمیر نے اُنہیں بہت متاثر کیا۔ یونیورسٹی کے دوسرے سال کے دوران وہ یونیورسٹی یونین کی صدر منتخب ہوئیں۔ اُن دنوں عمران خان بھی، جو بعد میں کرکٹ ہیرو اور پھر سیاسی رہنما بنے، اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔ بے نظیر اور عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہم عصر تھے اور ایک دوسرے کو بخوبی جانتے تھے۔
اُنہی دنوں جب ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے 1971 کی جنگ کے نتیجے میں جنگی قیدی بننے والے 90,000 پاکستانی فوجیوں کی رہائی کیلئے مزاکرات کرنے شملہ گئے تو وہ بے نظیر کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ شملہ نے بے نظیر کو مری کی یاد دلائی۔ تاہم، شملہ مری کے مقابلے میں زیادہ بڑا اور گنجان آباد تھا۔ اس مختصر دورے میں بھارتی میڈیا نے بے نظیر کو بہت زیادہ کوریج دی۔
عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دئے جانے کے بعد جب وہ نصرت بھٹو سے تعزیت کیلئے کراچی اُن کی رہائش گاہ 70 کلفٹن پہنچیں تو اُنہیں اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ تاہم، وہاں موجود تعزیتی کتاب میں اُنہوں نے اپنے تاثرات قلمبند کئے۔ مصنفہ کے بقول، بعد میں بے نظیر نے خود اُنہیں بتایا کہ یہ کتاب کبھی بھی اُنہیں نہیں دکھائی گئی۔
کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد اُن کے دونوں بیٹوں مرتضیٰ اور شاہنواز کی طرف سے بھارت جا کر ’الذوالفقار‘ تنظیم بنانے سے لیکر دونوں کی شہادت تک کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں۔ اس دوران، بے نظیر بھٹو لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ بالآخر 1986 میں متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زید کی مدد سے وہ پاکستان واپس آنے میں کامیاب ہوئیں جہاں عوام نے اُن کا شاندار استقبال کیا۔
اس دوران، بے نظیر نے تمام ملک کے تفصیلی دورے کئے اور پیپلز پارٹی کو ازسرنو منظم کیا اور انتخابات کیلئے بھرپور مہم چلائی۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ اس موقع پر نصرت بھٹو کی خواہش تھی کہ بے نظیر کی جلد شادی ہو جائے۔ اس کیلئے، بقول اُن کے، سندھ کے ایک سرکاری افسر شجاع شاہ کا نام لیا گیا، جنہوں نے سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے جنرل ضیاء کو خط لکھ کر بے نظیر سے شادی کرنے کی اجازت مانگی۔ تاہم، جب بے نظیر کو یہ معلوم ہوا تو اُنہوں نے اس رشتے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ فیصل صالح حیات کا نام بھی تجویز کیا گیا۔ لیکن، عابدہ حسین کہتی ہیں کہ فیصل حیات کی تعلیم کم تھی اور وہ بور قسم کے آدمی تھے۔ اُن کے بعد آصف زرداری کی سوتیلی والدہ ٹمی آصف کا رشتہ لیکر نصرت بھٹو کے پاس آئیں۔ اُس وقت بے نظیر لندن میں تھیں۔ آصف اُن سے ملنے لندن آئے۔ ملاقات میں بے نظیر پر آصف زرداری کا اچھا تاثر قائم ہوا اور اُنہوں نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ یوں، بے نظیر اور آصف زرداری کی شادی ہو گئی۔
مصنفہ لکھتی ہیں کہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد جب بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو اُن کی عمر صرف 35 برس تھی۔ بقول اُن کے، ’’اپنی ناتجربہ کاری کے باعث، بے نظیر نے بہت سی غلطیاں کیں‘‘۔ اس دوران آصف زرداری نے کراچی میں ساحل سمندر کے قریب ایک زمین پر قبضہ کرکے اردگرد کے مکانات منہدم کروائے اور اپنے لئے وہاں ایک عالیشان بنگلہ تعمیر کروا لیا۔ اس طرح آصف زرداری کے بارے میں بدعنوانی کی خبریں رفتہ رفتہ بڑھتی گئیں اور بالآخر ایک وقت اُنہیں ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
عابدہ حسین مزید لکھتی ہیں کہ اپنے اس دور کے دوران بے نظیر نے جرمنی سے 15 بلٹ پروف مرسڈیز لگژری گاڑیوں کا آرڈر دیا جس کیلئے قومی خزانے سے بھاری رقوم ادا کئی گئیں۔ اس کے علاوہ، اُنہوں نے پارلیمان کی عمارت کے نزدیک وزیروں کیلئے پر تعیش بنگلوں اور پارلیمانی ارکان کیلئے اپارٹمنٹس کی تعمیر کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں، بے نظیر نے پارلیمان کی عمارت کے سامنے ایک ڈپارٹمنٹ سٹور تعمیر کرنے کا بھی حکم دیا، تاکہ وہ اور اُن کے بچے بغیر کسی تکلیف کے آرام سے وہاں شاپنگ کر سکیں۔ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ بے نظیر کے بچوں کو اور اُن کے دوستوں کو بار بار کراچی سے لانے اور واپس بھجوانے کیلئے وزیر اعظم کا جہاز مسلسل استعمال کیا گیا۔ ایک مرتبہ بے نظیر کی بیٹی بختاور کو کراچی میں کھلنے والے ’باسکن اینڈ روبنز‘ سٹور سے آئیس کریم کھانے کیلئے وزیر اعظم کا جہاز اُنہیں کراچی لیکر گیا۔
یوں، بے نظیر کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات سر اُٹھانے لگے اور بالآخر مخلف سیاسی جماعتوں کے شدید دباؤ کے نتیجے میں صدر غلام اسحٰق خان نے آئین کی دفع 58-2 (b) استعمال کرتے ہوئے بے نظیر حکومت کو برخاست کر دیا۔
بے نظیر نے 1993 میں ایک مرتبہ پھر انتخابات جیت کر وزیر اعظم کا منصب سنبھالا۔ اپنی دوسری مدت کے دوران بے نظیر نے اپنی پارٹی کے ایک لیڈر فاروق لغاری کو صدر منتخب کرایا۔
اس دوران، اُنہوں نے مبینہ طور پر ایوانِ وزیر اعظم کی تزئین و آرائش کا ٹھیکہ اپنے ایک کزن اور اس کی بیگم کو دے دیا۔ اُدھر اُن کے شوہر آصف زرداری نے راولپنڈی میں راول لیک کے نزدیک زمین کا ایک بڑا ٹکڑا زبردستی کوڑیوں کے مول خرید لیا اور وہاں لیک ویو ہوٹل تعمیر کر لیا۔
یوں، دوسری مدت کے دوران بھی بے نظیر اور اُن کی حکومت پر کرپشن کے الزامات لگنے لگے اور پھر بے نظیر کے اپنے منتخب کردہ صدر فاروق لغاری نے اُن کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ اس کے بعد، بے نظیر کے ساتھ اُن کی قربت بڑھنے لگی اور وہ ہر بات پر عابدہ حسین سے مشورے کرنے لگیں۔ اُن دونوں کی کئی ملاقاتیں لندن اور امریکہ میں ہوئیں جن میں، بقول عابدہ حسین، بے نظیر نے اُن کے مشورے پر نواز شریف کے ساتھ ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کئے۔
اس دوران، بے نظیر بھٹو دبئی اور لندن سے اپنی پارٹی چلاتی رہیں اور پھر ایک روز متحدہ عرب امارات کے حکمران نے بے نظیر کو فون کرکے کہا کہ وہ جنرل پرویز مشرف سے معاملات طے کرنے کیلئے فوراً دبئی پہنچیں۔ عابدہ حسین کے مطابق، اس ملاقات میں بے نظیر نے جنرل مشرف سے ڈیل کر لی جس کے نتیجے میں وہ معاہدہ طے پایا جسے عرف عام میں ’این آر او‘ کہا جاتا ہے۔
اس ’این آر او‘ کے نتیجے میں بے نظیر دوبارہ پاکستان آنے میں کامیاب ہوئیں اور کراچی پہنچتے ہی اُن کے جلوس کے دوران اُن کے ٹرک کے نزدیک دھماکہ ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے بہت سے کارکن ہلاک ہو گئے۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ اس دھماکے سے کچھ دیر پہلے بے نظیر ٹرک کی چھت پر موجود تھیں اور چونکہ عابدہ حسین کو یہ اطلاعات تھیں کہ اس جلوس کے دوران کسی حملے کا امکان ہے تو وہ خود بے نظیر کو چھت سے نیچے ٹرک کے اندر لے آئی تھیں۔ یوں حملے کے دوران وہ خود محفوظ رہیں۔
عابدہ حسین کا کہنا ہے کہ 12 دسمبر، 2007 کو اُن کی دوست صحافی للی وے ماؤتھ نے واشنگٹن سے اُنہیں فون کر کے بتایا کہ وہ بے نظیر سے انٹرویو کرنے اسلام آباد آ رہی ہیں۔ للی نے معروف رسالے ’نیوز ویک‘ کے ایڈیٹر راڈ نارڈلینڈ کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر F/8 میں بے نظیر کے گھر پر اُن سے انٹرویو میں سوال کیا کہ کیا وہ جنرل مشرف کے ساتھ کام کرنا چاہیں گی؟ اس کے جواب میں بے نظیر نے کہا کہ اگر ملک کے مفاد میں ہوا تو وہ ضرور ایسا کریں گی۔ بعد میں للی نے مشرف سے بھی انٹرویو کیا اور اُن سے یہی سوال کیا کہ کیا وہ بے نظیر کے ساتھ کام کرنے کیلئے راضی ہوں گے؟ عابدہ حسین کے مطابق، یہ سوال سن کر پرویز مشرف طیش میں آگئے اور انٹرویو ادھورا چھوڑ کر کمرے سے جانے لگے۔ پھر دروازے سے پلٹ کر پرویز مشرف نے کہا کہ بے نظیر ایک چڑیل ہیں اور اُن پر بالکل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ مشرف نے کہا کہ بے نظیر غیر محب وطن ہیں اور وہ اُن کے ساتھ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
عابدہ لکھتی ہیں کہ اس انٹرویو کے بعد للی اُن سے ملنے آئیں اور اُن سے کہا کہ وہ یہ بات بے نظیر تک پہنچا دیں۔ عابدہ حسین نے اپنے بلیک بیری فون سے یہ تمام تفصیل لکھ کر بے نظیر بھٹو کو بھیج دی۔
عابدہ حسین بے نظیر کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ اُنہوں نے بے نظیر کو مشورہ دیا تھا کہ وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب نہ کریں، کیونکہ وہاں اُن کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، بے نظیر نے اس مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں جلسے سے خطاب کیا۔ خطاب کے بعد وہ اپنی گاڑی میں واپس آئیں اور مخدوم امین فہیم اور ناہید خان کے درمیان بیٹھ گئیں جبکہ اُن کے سیکورٹی افسر میجر امتیاز اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے تھے اور صفدر عباسی اور پیپلز پارٹی کے ایک کارکن خالد شہنشاہ پچھلی سیٹ پر موجود تھے۔ جونہی اُن کی گاڑی لیاقت باغ سے باہر آئی تو خالد شہنشاہ نے گاڑی کا سن روف کھول دیا۔ عابدہ لکھتی ہیں کہ ایسا کرنے سے قبل خالد شہنشاہ نے گردن کے گرد انگلی لہرانے کا عجیب اشارہ دیا جس سے یہ تاثر ابھرا کہ وہ کسی کے مارے جانے کا اشارہ کر رہے تھے۔ یہ منظر وہاں لگے کیمرے نے محفوظ کر لیا تھا۔
بے نظیر نے کھڑے ہو کر سن روف کے ذریعے اپنا سر باہر نکالا اور لوگوں کی طرف ہاتھ ہلایا۔ چند ہی سیکنڈ بعد گولیاں چلنے اور پھر ایک دھماکے کی آواز سنائی دی۔ بے نظیر گردن پر گولی لگنے کے بعد ناہید خان کی بانہوں میں گر گئیں۔ بے نظیر کو فوراً ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ بہت زیادہ خون بہ جانے کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔
آصف زرداری اُس وقت دبئی میں تھے۔ اُن سے بے نظیر کے پوسٹ مارٹم کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے انکار کر دیا۔ آصف زرداری اپنے بچوں کے ساتھ فوری طور پر پاکستان پہنچے اور بے نظیر کی گڑھی خدا بخش میں اُن کے والد کے پہلو میں تدفین کر دی گئی۔
آخر میں عابدہ حسین پیپلز پارٹی کی اُس سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا تذکرہ کرتی ہیں جس میں آصف زرداری نے بے نظیر کے ہاتھ سے لکھی ہوئی اُس متنازعہ وصیت کا تذکرہ کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بے نظیر کی شہادت کی صورت میں پارٹی کی قیادت آصف زرداری اُس وقت سنبھالیں گے جب تک کہ بلاول اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر پارٹی کی قیادت کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔
کتاب میں عابدہ حسین نے لکھا ہے کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد اُن کے شوہر آصف علی زرداری نے اُن کے ہاتھ سے لکھی ہوئی جو وصیت پیش کی تھی، وہ اسے بالکل صحیح سمجھتی ہیں اور اس کے متنازعہ ہونے کے بارے میں جو تاثر ہے وہ درست نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہوں نے اس وصیت کی تحریر کو اُس خط سے مشابہہ پایا جو بے نظیر نے اپنے ہاتھ سے عابدہ حسین کو لکھا تھا۔
عابدہ حسین کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ وہ بلاول کے بالکل پیچھے بیٹھی تھیں۔ آصف زرداری نے اعلان کیا کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول ہوں گے اور وہ خود شریک چیئرمین کی حیثیت سے پارٹی کے معاملات چلائیں گے۔
اسی وقت آصف زرداری کو اطلاع دی گئی کہ غیر ملکی صحافی باہر منتظر ہیں۔ آصف زرداری نے بلاول سے کہا کہ وہ پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے باہر جا کر غیر ملکی میڈیا سے بات کریں۔ عابدہ حسین کے بقول، بلاول نے مڑ کر اُن سے سوال کیا کہ وہ میڈیا سے کیا بات کریں۔ اس کے جواب میں، عابدہ حسین نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ بے نظیر کا وہ قول وہاں دہرائیں جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔‘‘
عابدہ حسین کہتی ہیں کہ بعد میں بلاول نے اُنہیں بتایا کہ اُنہوں نے میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وہی بات کی جس کا مشورہ عابدہ حسین نے دیا تھا۔
اپنی اس کتاب میں عابدہ حسین نے بے نظیر کے لباس اور وارڈروب کا تذکرہ مسلسل اس انداز میں کیا ہے گویا بے نظیر اپنے مختلف انداز کے دیدہ زیب لباس کے ذریعے گلیمر کا تاثر ابھارنا چاہتی تھیں، جیسے وہ کوئی شہزادی ہوں۔
اپنی کتاب میں عابدہ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ خود اُن کے بے نظیر کے ساتھ رابطوں اور اُن کے خیالات کے حوالے سے ہیں جن میں یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ بہت سے نازک موقعوں پر بے نظیر بھٹو نے اُنہی کے مشوروں پر عمل کیا۔ کچھ تجزیہ کار کتاب میں شامل کی گئی تفصیلات کو مبالغہ آرائی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ خود بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی بختاور نے بھی عابدہ حسین کے خیالات کو بے نظیر بھٹو کے خلاف جھوٹے الزامات قرار دیتے ہوئے ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھیجا تھا جس کے بعد کراچی میں اس کتاب کی رونمائی کی تقریب منسوخ کر دی گئی تھی۔
بختاور نے اپنے نوٹس میں لکھا تھا کہ یہ کتاب اُن کی والدہ کے حوالے سے جھوٹ کا پلندہ ہے جو اُن کی وفات کے دس سال بعد لکھی گئی ہے اور وہ ان الزامات کا جواب دینے کیلئے زندہ نہیں ہیں۔
ان سب باتوں سے قطع نظر یہ کتاب بہت سے لوگوں کیلئے دلچسپی کا باعث بھی ہے، کیونکہ یہ کتاب بے نظیر بھٹو کے بارے میں ہے اور اسے ایک کہانی کی شکل میں لکھا گیا ہے۔
اس کتاب کی مصنفہ عابدہ حسین نے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز 1971 میں کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں۔ بعد میں وہ پاکستان مسلم لیگ نون میں شامل ہوگئیں اور اس پارٹی کے ٹکٹ پر دوبارہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ وہ 2006 میں دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں۔ عابدہ حسین 1991 سے 1993 تک امریکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہیں۔