پاکستان کی ایک عدالت نے سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں نامزد پانچ ملزمان کو بری اور دو پولیس افسران کو تحقیقات میں غفلت برتنے کے الزام میں 17، 17 سال قید کی سزا سنادی ہے۔
مقدمے کی سماعت کرنے والی راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جمعرات کو سنائے جانے والے اپنے فیصلے میں مقدمے میں نامزد ایک اور ملزم اور سابق صدر پرویز مشرف کی تمام جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں اشتہاری قرار دے دیا ہے۔
عدالت کی طرف سے یہ فیصلہ سابق وزیرِاعظم کے قتل کے تقریباً 10 سال بعد سنایا گیا ہے۔
بینظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے بعد ہونے والے ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
مقدمے کی سماعت کرنے والی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج اصغر علی خان نے مقدمے کا فیصلہ بدھ کو محفوظ کر لیا تھا جو انہوں نے جمعرات کو اڈیالہ جیل میں سنایا۔
فیصلے میں عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر گرفتار پانچوں مرکزی ملزمان - رفاقت حسین، حسنین گل، رشید ترابی، شیر زمان اور اعتزاز شاہ کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے کے الزام میں دو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو 17، 17 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے دونوں پولیس افسران پر پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے جسے ادا نہ کرنے کی صورت میں دونوں افسران کو مزید چھ ماہ قید کاٹنا ہوگی۔
قتل کے وقت سعود عزیز راولپنڈی پولیس کے سربراہ تھے اور ایک اور پولیس افسر خرم شہزاد کے ساتھ بینظیر بھٹو کی حفاظت پر تعینات تھے۔
دونوں پولیس افسران پر الزام تھا کہ اُنھوں نے دھماکے کے فوراً بعد جائے واقعہ دھلوادی تھی جس سے قتل کے شواہد ضائع ہوگئے تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں بیرونِ ملک مقیم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی تمام جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
پرویز مشرف کی غیر حاضری کے باعث ان کے خلاف مقدمہ داخلِ دفتر کردیا گیا ہے جو ان کی وطن واپسی پر دوبارہ کھولا جائے گا اور دوبارہ ٹرائل ہوگا۔
جب بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو پرویز مشرف ملک کے صدر تھے۔ لیکن وہ قتل سے متعلق خود پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں بینظیر بھٹو کو مکمل سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔
راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے نو سال، آٹھ ماہ اور تین روز کے بعد اس مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے۔
اس دوران مقدمے کے سات چالان عدالت میں پیش کیے گئے جب کہ مقدمے کی سماعت کرنے والے آٹھ جج اور تین عدالتیں تبدیل ہوئیں۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد اس وقت کی حکومت نے تحریکِ طالبان پاکستان کے اس وقت کے سربراہ بیت اللہ محسود کو اس کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا اور اس بارے میں ایک آڈیو ٹیپ بھی ریلیز کی تھی۔ لیکن عدالت نے اس ٹیپ اور شواہد کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
عدالت کے فیصلے کے باوجود بینظیر بھٹو کا قتل اب بھی ایک معمہ ہے جس میں قتل کے الزام کسی بھی شخص کو سزا نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کے مقدمۂ قتل کے فیصلے کو مایوس کن اور ناقبول قرار دیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بلاول نے کہا کہ ’’دہشت گردوں کی رہائی نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔‘‘
بلاول بھٹو زداری کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت اس بارے میں قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔