امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں رواں برس نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے ٹھیک ایک ماہ قبل بروز ہفتہ ہزاروں خواتین اور مختلف طبقات سے وابستہ افراد ملک کے متعدد شہروں میں وومن مارچ کے لیے سڑکوں پر نکلے۔
ملک میں رواں برس مئی میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے 1974 کے رو ورسز ویڈ کے عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے بعد کانگریس پر کنٹرول حاصل کرنے کی دوڑ مزید تیز ہوگئی ہے۔ ایسے میں اسقاط حمل کا معاملہ ان انتخابات کے دوران ایک اہم مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق ہفتے کے روز ملک کے متعدد شہروں میں ایسی ہی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔
ان ریلیوں میں بچوں سے لے کر بڑوں تک، عورتیں اور مرد شامل ہوئے۔
’’میں یہاں دوسروں کے ساتھ اس لیے آئی ہوں کہ عورتوں کے حقوق کو اس وقت خطرہ ہے۔‘‘
یہ کہنا تھا رائیز فار ابارشن رائیٹس ادارے کی آرگنائزر سیم گولڈمین کا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج امریکہ میں بچہ پیدا کرنے کے قابل ہر تین میں سے ایک خاتون اپنی ریاست میں اسقاط کا حق کھو چکی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک میں خواتین کو قانونی طور پر اسقاط حمل کا حق ملنا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہئے کہ بقول ان کے ’’ صرف ووٹ ڈالنے سے فاشزم کا یہ زور ختم ہونے والا نہیں ہے‘‘
انہوں نے کہا ’’ہمیں لاطینی امریکہ میں موجود اپنی بہنوں سے سیکھنا ہوگا، ہمیں ایک گرین ویو کی ضرورت ہے۔ ہمیں ابارشن پر پابندیوں کے خلاف اپنا غصہ ظاہر کرنا ہوگا۔ اور سڑکوں پر آنا پڑے گا۔‘‘
گولڈمین کا اشارہ لاطینی امریکی ممالک میں گزشتہ چند برسوں سے چلنے والی ’’ماریا وردے‘‘ تحریک کی جانب تھا۔ 2018 میں ارجنٹائن سے شروع ہونے والی تحریک کے دوران اسقاط حمل کو قانونی قرار دینے کی حمایت میں خواتین سبز لباس یا اوڑھنیاں پہن کر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں۔
اس تحریک کے نتیجے میں لاطینی امریکہ میں اب تک ارجنٹائن ، کولمبیا اور میکسیکو میں خواتین کے اسقاط حمل کے حق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرے کے دوران ایک شخص نے اس مظاہرے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس شخص، جس نے اپنا نام جانتھن بتایا کہا ’’میں ابارشن کے خلاف ہوں‘‘۔
جانتھن کا کہنا تھا کہ جب سے عدالتی فیصلہ آیا ہے ابارشن کے حمایت کرنے والوں کی طرف سے بہت نفرت انگیز ردعمل سامنے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ آوازیں غالب آ سکتی ہیں۔ بقول ان کے ’’اس لیے میں ابارشن مخالف آوازوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اٹھیں اور ان کا مقابلہ کریں۔‘‘
جب کہ ریلی میں شریک ایک خاتون سٹیسی جاربو نے عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسقاط حمل بہت سے لوگوں کے لیے ایک اہم طبی آپریشن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک میں امریکہ میں بچہ پیدا کرنے والی عورتوں کی اموات کی شرح سب سے بلند ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کی روک تھام کے منتظم ادارے ادارے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں زچگی کی وجوہات سے عورتوں کی اموات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر ایک لاکھ زچگیوں میں 23.8 اموات کی شرح ہے۔ امریکہ کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں فرانس کا نمبر آتا ہے۔ فرانس میں یہ شرح 8.7 ہے۔
جاربو نے اسقاط حمل کے مخالف افراد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں عورتوں اور بچوں کی پرواہ ہوتی تو وہ عورتوں اور بچوں کے علاج معالجے کے لیے قوانین منظور کرواتے۔
بقول جاربو کے ’’جب وہ کہتے ہیں کہ وہ زندگی کے حمایتی ہیں، تو ایسا بالکل نہیں ہے، وہ عورتوں کو غلام بنانے کے حمایتی ہیں۔‘‘
اس خبر کے لیے کچھ مواد ارائیٹرز سے لیا گیا ہے۔