فیصلے کے ابتدائی جھٹکے کے بعد، نواز شریف ’نارمل‘ نظر آئے۔ اور انہوں نے دو تین گانوں کے اشعار بھی صحافیوں کو سنائے، جن میں بھارتی فلم’ داغ‘ کا طلعت محمود کی آواز میں گایا ہوا یہ گانا بھی شامل تھا:
اے میرے دل کہیں اور چل
غم کی دنیا سے دل بھر گیا
ڈھونڈ لے اب کوئی گھر نیا
اے میرے دل کہیں اور چل
اِس سے قبل سینیٹر عباس آفریدی کے ’فارم ہاؤس‘ سے جب نواز شریف احتساب عدالت کے لیے روانہ ہوئے، تو وہاں موجود پارٹی قائدین نے گلے مل کر انہیں رخصت کیا۔
کمرہٴ عدالت میں نواز شریف داخل ہوئے تو وہاں موجود صحافیوں سے مصافحہ کیا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی سوال کرتے، نواز شریف نے کہا کہ ’’رہائی لینے آیا ہوں، یا پھر قید ہونے آیا ہوں”۔
عدالت میں ’فلیگ شپ ریفرنس‘ کا فیصلہ سنایا گیا تو جج ارشد ملک نے سامنے پڑے کاغذ کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا کہ ’’اِس ریفرنس میں تو کچھ نہیں۔ لہذا، اِس میں بَری کیا جاتا ہے‘‘۔ اِس پر نواز شریف کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
اور، اُس کے بعد، العزیزیہ کا فیصلہ سنایا گیا تو نواز شریف کو جج کی طرف سے سنایا گیا فیصلہ سمجھ نہ آیا۔ جس پر نواز شریف نے قریب موجود حامی وکیل سے پوچھا کہ کیا فیصلہ آیا۔ لیکن، وہ وکیل خاموش رہا۔ جس پر وہاں موجود خواجہ حارث نے نواز شریف کو فیصلے سے آگاہ کیا۔ جس پر نواز شریف کچھ دیر پریشان نظر آئے۔
فیصلے کا اعلان ہونے کے بعد نواز شریف کے قریب موجود پرویز رشید اور مریم اورنگزیب آبدیدہ ہوگئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ تاہم، فیصلہ سنائے جانے کے بعد نواز شریف نے وہیں خواجہ حارث اور باقی ساتھیوں سے مشاورت شروع کر دی، اور چند ہی لمحوں میں، لاہور کوٹ لکھپت میں رکھے جانے کے لیے درخواست دیدی۔
عدالت کے اندر موجود نیب اہلکاروں نے نواز شریف کی گرفتاری کی اجازت طلب کی جو جج ارشد ملک نے دیدی۔ جس کے بعد، ان کے گرد نیب اہلکار قریب آکر کھڑے ہوگئے۔ نواز شریف کے ساتھ آنے والے گارڈز کو پہلے ہی احتساب عدالت کے باہر سے ہی اتار لیا گیا تھا۔
جب اُن کو اڈیالہ جیل لے جانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے ایک اسسٹنٹ کمشنر آئے، تو نواز شریف نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’’عدالت نے لاہور کا کہا ہے۔ اڈیالہ نہیں جاؤنگا‘‘۔
اِس پر، ضلعی انتظامیہ کے افسر نے کہا کہ ’’آپ کو کل لاہور پہنچایا جائے گا، کیونکہ رات کے وقت جیل حکام کسی قیدی کو وصول نہیں کرتے اور اب شام ہونے والی ہے۔ لاہور جانے کے لیے انتظامات بھی کرنا ہونگے۔‘‘
نواز شریف نے سوال کیا کہ ’’آپ کس گاڑی میں لاہور لیکر جاؤگے؟‘‘ جس پر، انہیں بتایا گیا کہ ’’بلٹ پروف ’کرولا‘ کار ہوگی‘‘۔ نواز شریف نے کہا کہ ’’اگر ہم اپنی گاڑی میں جائیں تو آپ ساتھ لے جائیں۔، کیا میں اپنی گاڑی میں جاسکتا ہوں؟‘‘
ضلعی انتظامیہ کے افسر نے اپنے افسران سے بات کرنے کے بعد اثبات میں جواب دیا۔ جس پر، نوازشریف نے پیچھے بیٹھے حمزہ شہباز کو آواز لگائی اور کہا “حمزہ کل صبح 10 بجے گاڑی اڈیالہ پہنچا دینا۔”
فیصلہ کے فوری بعد وہاں موجود ن لیگ کے بعض رہنماؤں کی آواز بھرا گئی تھی۔ لیکن، کچھ دیر بعد وہ اسی عدالت میں بیٹھے اس فیصلے پر مزاحیہ تبصرے بھی کر رہے تھے۔
لیکن، کمرہٴ عدالت میں موجود ایک شخص کی آنکھیں تمام وقت نم رہیں۔ وہ حمزہ شہباز تھے۔ اپنے تایا کی گرفتاری کے اعلان کے بعد وہ انتہائی سنجیدہ رہے اور آنکھیں نم رہیں۔
موقع ملنے پر صحافی گپ شپ بھی لگاتے رہے اور پوچھا کہ مریم کو آپ نے آنے سے منع کیا؟۔ جس پر نواز شریف نے کہا کہ اگر وہ آتی تو پریشان ہوتیں۔ میری چھوٹی بیٹی بھی پاکستان آئی ہوئی تھی اور وہ آنا چاہتی تھی۔ لیکن میں نے اس کو بھی منع کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز بھی گرفتار ہے اور میری اہلیہ کلثوم کی وفات کے بعد میری والدہ بہت پریشان رہتی ہیں، “جب وہ روتی ہیں تو میرا دل روتا ہے۔ اسی وجہ سے مریم کو کہا کہ ان کا خیال رکھو”۔
عدالت سے روانگی کی وقت نواز شریف وہاں موجود تمام افراد سے ملے۔ سب صحافیوں سے مصافحہ کیا۔ نواز شریف نیب کے اس تفتیشی افسر سے بھی ملے جس نے العزیزیہ ریفرنس میں ان کے خلاف تحقیقات کی تھیں۔ نواز شریف پولیس، خواتین اہلکاروں اور پولیس اہلکاروں سے فرداً فرداً ملے اور آخر میں حمزہ شہباز سے کہا:
’’میرے کپڑے گاڑی میں رکھوا دو۔ کل صبح گاڑی بھی پہنچا دینا۔ رات کے لیے اڈیالہ میں بستر بھی پہنچا دینا‘‘۔
اتنا کہنے کے بعد، نواز شریف نیب اہلکاروں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے، جہاں سے انہیں اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔