پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے واضح کیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کسی غیر ملکی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں غیر ملکی سفیروں کو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی وسائل کی روک تھام پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس کا تعلق فنانشل ٹاسک فورس کے تجویز کردہ اقدامات سے نہیں ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ایک اعلامیے کے مطابق شہریار آفریدی نے بریفنگ کے دوران غیر ملکی سفارت کاروں کو بتایا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف 2014ء میں بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کیے جا رہے ہیں۔
شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ یہ کریک ڈاؤن موثر انداز میں جاری ہے اور یہ کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم تنطیموں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں پر نظر رکھنے کے لیے وزارتی سطح پر کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں اور اس معاملے پر تمام ریاستی اداروں میں اتفاقِ رائے ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں رواں سال فروری میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد کی طرف سے قبول کرنے کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات انہتائی کشیدہ ہو گئے تھے۔ جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر ہیں جو پاکستان میں مقیم ہیں۔
اس واقعے کے بعد نہ صرف بھارت بلکہ عالمی برداری کی طرف سے پاکستان پر شدت پسندوں تنظمیوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ بڑھا تھا۔
پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان نے ملک بھر میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا جس میں متعدد کالعدم تنظیموں کے اثاثوں کو سرکاری تحویل میں بھی لیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے گزشتہ سال جون میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مالی وسائل کی روک تھام کے موثر اقدامات میں ناکامی پر پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرتے ہوئے اس کے لیے ایک ایکشن پلان تیار کیا تھا تاکہ وہ گرے لسٹ سے نکل سکے۔
اگرچہ پاکستان نے اس سلسلے میں کئی اقدامات کیے ہیں جن میں سرگرم شدت پسندوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ ان کے اثاثے منجمند کرنا بھی شامل ہے، لیکن عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی موثر روک تھام سے متعلق پاکستان کو مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
حکومتِ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ شدت پسند تنظیموں کے خلاف جاری کاروائیوں کا تعلق ایف اے ٹی ایف سے نہیں جوڑنا چاہیے۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بظاہر حالیہ کارروائیاں انہی اقدامات کا تسلسل ہیں جو پاکستان گزشتہ ایک سال سے ایف اے ٹی ایف کے تجویز کردہ ایکشن پلان کے تحت کر رہا ہے۔