ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم ساتھ وسیع تر قومی اتفاق رائے سے تشکیل پانے والے نیشنل ایکشن پلان کو چار سال ہو چکے ہیں، لیکن اس کے کئی نکات پر ابھی تک عمل نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے رواں ہفتے دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق اپنے حالیہ اقدامات سے غیر ملکی سفیروں کو آگاہ کیا اور آرمی چیف کی صدارت میں کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے فوج کی حمایت کے عزم کو دہرایا گیا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنا، بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حملے اور جیش محمد کے بانی مسعود اظہر کی سلامتی کونسل میں پابندی کی قراداد لانے کے بعد نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کا کردار ایک بار پھر سے حکومتی اجلاسوں، سیاسی بیانات اور ٹی وی مذاکروں کا موضوع بنا ہوا ہے۔
ملک کے اندرونی حالات کا تقاضا کہیں یا بین الاقوامی دباؤ کا اثر، پاکستان کی حکومت داخلی سلامتی اور اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کے لئے سرگرم نظر آ رہی ہے۔
جمعرات کے روز وزیر اعظم عمران خان نے بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور اس میں حائل رکاوٹوں سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں صوبائی سیکرٹری داخلہ نے کالعدم جماعتوں اور ان کے اثاثہ جات منجمد کرنے کے بارے میں اپنی رپورٹس پیش کیں۔
دنیا کیا چاہتی ہے؟
حکومت کی جانب سے یہ اقدامات اپنی جگہ، لیکن عالمی برادری چاہتی ہے کہ انتہاءپسندی اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات ٹھوس، مستند اور ناقابل واپسی ہونے چاہیں۔
ایف اے ٹی ایف نے بھی اپنے حالیہ جائزہ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی مالی ترسیل روکنے کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے حالیہ اقدامات کے باوجود معروضی حالات تبدیل نہیں ہوئے۔
نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل ہوا؟
چار سال گزرنے کے باوجود نینشل ایکشن پلان کے اہم نکات پر قابل عمل پیش رفت نہیں کی جا سکی اور انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو تاحال مکمل طور پر فعال نہیں بنایا جا سکا۔ نیکٹا کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جینس کو ابھی تک تشکیل ہی نہیں دیا جا سکا جس کے باعث خفیہ معلومات کے تبادلے کا مسئلہ برقرار ہے۔ ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والے اس ادارے کو آج بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں کو روکنا اور انہیں نئے ناموں سے کام نہ کرنے دینا تھا۔ تاہم یہ الزامات تواتر کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں کہ اس پالیسی کے برعکس بعض کالعدم تنظیمیں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی پارلیمنٹ میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ جب نیشنل ایکشن پلان میں کالعدم جماعتوں کے خلاف کاروائی کرنے کو کہا گیا ہے تو پھر ریاست انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی کہاں سے لے آئی ہے۔
اسی طرح مدارس ریفارمز، تعلیمی نصاب، کالعدم جماعتوں کی مالی معاونت کو روکنا، وہ اہم پہلو ہیں جن پر اب تک مکمل عمل دآرمد نہیں کیا جا سکا ہے۔ بڑے شہروں کے سوا مدارس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل نہیں ہو سکا اور اس بارے میں آج بھی حکومتی اداروں کے پاس مکمل معلومات موجود نہیں ہیں۔
لاؤڈ اسپیکر ایکٹ پر نیشنل ایکشن پلان کے مطابق عمل درآمد کروایا جا رہا ہے جب کہ اسکولوں اور مدارس کے نصاب کے سلسلے میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم موبائل سمز کی تصدیق کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔
پلان کا ایک جزو افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی بھی تھی لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اس پر بھی مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا اور افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت بھی کیمپوں اور عام آبادیوں میں موجود ہے۔
ایکشن پلان کی راہ میں حائل رکاوٹیں
مسلم لیگ ن کے دور میں تشکیل پانے والے نیشنل ایکشن پلان پر اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے خود نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس سلسلے میں پندرہ کمیٹیاں بھی تشکیل دیں گئیں تھیں۔ لیکن اپنے خلاف پانامہ مقدمہ شروع ہونے اور عدالتی کارروائیوں میں الجھنے کی وجہ سے ان کی توجہ اس جانب سے ہٹ گئی۔
بعض حلقے مسلم لیگ ن کی حکومت پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کے سیاسی پہلوؤں پر جانب داری سے کام لیا اور اس پر عمل درآمد میں لیت و لال کی۔
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر بھی حزب اختلاف یہ الزام عائد کرتی ہے کہ اس نے کالعدم جماعتوں کے ساتھ مل کہ انتخابات میں حصہ لیا تھا، اس لیے وہ ان جماعتوں کے خلاف کاروائی سے گریز کر رہی ہے۔
ایک دوسرے کے خلاف ان الزامات کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع؟
فوجی عدالتوں کے قیام کی دو سالہ توسیعی مدت گزشتہ ماہ ختم ہو گئی تھی۔ حکومت ان عدالتوں کی مدت میں ایک بار پھر اضافہ کرنا چاہتی ہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو اس سلسلے میں ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے۔ جب کہ حزب اختلاف کی کئی پارٹیاں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی اعلانیہ مخالفت کر رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے صرف دو نکات، دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن اور ان کے مقدمات کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام پر ہی باقاعدہ عمل ہوا ہے لیکن ادارہ جاتی اصلاحات، نفاذ قانون کے اداروں میں ہم آہنگی اور کریمینل جسٹس سسٹم میں خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کے مطابق حکومت پاکستان کے حالیہ اقدامات عالمی کے دباؤ کا نتیجہ ہیں اور حکومت کو اندازہ ہے کہ اپنے تاثر کو بہتر بنانے کے لئے مزید عملی اقدامات درکار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاسی عزم کے فقدان کے باعث نفاذ قانون کے ادارے شدت پسند جماعتوں کے خلاف کاروائیوں کو نتیجہ خیر بنانے میں ناکام رہے۔
20 نکاتی پلان پر کتنا عمل ہوا، اس پر تجزیہ کار اور سایسی جماعتیں مختلف آرا رکھتی ہیں اور اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس حکمت عملی کو جانچنے کا کوئی معیار یا پیمانہ نہیں رکھا گیا۔