(ویب ڈیسک) افغانستان میں ہلال احمر سوسائٹی نے اپیل کی ہے کہ زلزلے سے متاثرہ افغان عوام کو مذید امدادی سامان دینے کی بجائے نقدی دی جائے، کیونکہ اُن کے پاس مزید اشیائے ِ خور و نوش اور خیمے رکھنے کی جگہ ختم ہوگئی ہے۔جبکہ عوام کی مخصوص ضروریات پوری کرنے کے لئے کیش زیادہ کار آمد ہوگا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغان ہلال احمر سوسائٹی کے نائب سربراہ نور الدین ترابی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اِ ن علاقوں کے متاثرہ افراد کیش کی طلب کر رہے ہیں، کیونکہ اُنکے بقول اُنہیں کافی امدادی سامان مل چکا ہے۔
گزشتہ بدھ کے روز ملک کے جنوب مشرقی دور افتادہ علاقوں میں آنے والے زلزلے میں کم از کم1 ہزار افراد ہلاک اور 2ہزار زخمی ہوئے، جبکہ 10 ہزار گھر بھی تباہ ہوگئے۔ انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے "اوچہ'او سی ایچ اے" کے مطابق، اس زلزلے میں 155 بچے ہلاک ، 250 زخمی اور65 یتیم ہوگئے۔ادارے نے مذید بتایا کہ اتوار کی رات گئے تک خیموں کی کمی کا مسئلہ حل ہو گیا تھا اورمتاثرین میں خوراک، نقدی اور حفظان صحت کی کٹس تقسیم کی جا رہی تھیں۔تاہم کچھ علاقوں میں سڑکوں کی بری حالت اور موبائل نیٹ ورکس ڈاون ہونے کی وجہ سے مواصلات کی سہولت محدود تھی، جس کی وجہ سے امدادی سامان کی تقسیم میں مختلف مشکلات کا سامنا رہا۔
یہ ناگہانی آفت طالبان حکومت کی صلاحیتوں کا بڑا امتحان ثابت ہو رہی ہے، کیونکہ گزشتہ سال ملک پر قبضے کے بعد، اکثر غیر ملکی حکومتوں نے اُن سےکوئی رابطہ نہیں رکھا تھا ۔اسکے علاوہ افغان حکومتی اداروں اور بینکوں پر پابندیوں کی وجہ سے براہ راست امداد کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ تاہم اس زلزلے کے بعد اقوام متحدہ سمیت کئی ملکوں نے افغانستان کیلئے امداد فراہم کی۔ اس زلزلے سے پہلے بھی افغانستان قحط سمیت دیگر انسانی بحرانوں کا سامنا کر رہا تھا، اور اب حالات مذیر ابتر ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب طالبان حکومت میں قائم مقام وزیر برائے صحتِ عامہ قلندر عباد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان کے متاثرہ علاقوں میں زلزلے کے مذید جھٹکے محسوس کئے گئے، جس کی وجہ سے وہ علاقے لوگوں کی رہائش کیلئے محفوظ نہیں رہے اور وہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ رائٹرز کے مطابق جمعے کے روز اِ ن جھٹکوں سے 5 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوئے، تاہم اب تک مزید ہلاکتوں کی اطلاع نہیں ملی۔