رسائی کے لنکس

افغانستان میں زلزلے سے تباہی: کیا امریکہ کابل کے منجمد اثاثے جاری کر سکتا ہے؟


زلزلے سے متاثرہ ایک افغان خاتون کو امداد پر مامور ہیلی کاپٹر میں بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے (رائٹرز)
زلزلے سے متاثرہ ایک افغان خاتون کو امداد پر مامور ہیلی کاپٹر میں بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے (رائٹرز)

" ہم تو پہلے ہی بھوک اور غربت کا شکار تھے، ہم ايک وقت کے کھانے کے لیے اپنے ہی بچے بیچ رہے تھے، ہم تو پہلے ہی مر چکے تھے، اب اس زلزلے سے ہم نے اپنے سروں کے اوپر چھت کے نام پر جو کچھ تھا وہ بھی کھو دیا ہے،ہم زندہ ہی کيوں ہيں؟"۔ یہ الفاظ ہیں 27 سالہ افغان شہری آمنہ کے جنہوں نے 21 جون کو آنے والے تباہ کن زلزلے میں اپنا سب کچھ کھو دیا۔

ریکٹر اسکيل پر پانچ اعشاریہ نو کی شدت کے اس طاقتور زلزلے نے مشرقی افغانستان اور پاکستان کی سرحد کو ہلا کر رکھ دیا۔ افغانستان میں ایک ہزار کے قریب افراد ہلاک اور سينکڑوں زخمی ہو گئے۔ جب کہ اقوام متحدہ کے ايک اندازے کے مطابق تقريبا دو ہزار مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ آمنہ کا گھر ان تباہ ہونے والے گھروں ميں سے ايک ہے۔

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی بحران کے کوآرڈینیٹر رمیز الکباروف کے مطابق اس آفت سے نمٹنے کے لیے ایک اندازے کے مطابق15 ملین ڈالر کی امداد کی ضرورت ہے۔

طالبان نے ایک بار پھر امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثے جاری کرے تاکہ زلزلے سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ضروری اقدامات کیے جا سکیں۔

وی او اے سے بات کرتے ہوئے کابل میں طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ ، " اہم بات یہ ہے کہ امریکہ پابندیاں ہٹا کر اور افغان اثاثوں کو غیر منجمد کرکے افغان باشندوہ کی زندگیوں کے تئیں ناروا رویہ ختم کرے تاکہ لوگ دو دہائیوں کے قبضے اور اس تازہ ترین قدرتی آفت سے تباہ ہونے والی زندگیوں کو دوبارہ بہتر بنا سکیں۔"

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے تقریبا ساڑھے نو ارب ڈالر کے افغان اثاثے منجمد کر ديے تھے۔ اوربیرون ملک سے افغانستان فنڈز منتقل کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی جس سے ملک کے مالیاتی نظام کو شدید دھچکا لگا تھا اور پہلے سے کمزور معیشت مزید زبوں حالی کا شکار ہو گئی تھی۔

اس کے باوجود امریکی محکمہ خزانہ کی کوشش ہے کہ اس بات کو یقینی بنايا جاۓ کہ افغان عوام کے لیے انسانی امداد براہ راست افغانستان میں جائز شفاف چینلز ، بشمول امریکی حکومت، بین الاقوامی تنظیموں اورغیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذريعے جاری رہے۔ اوردوسرے ممالک ميں رہنے والے افغان ذاتی ترسیلات زر کے ذریعے افغانستان میں اپنے خاندانوں کی کفالت جاری رکھ سکيں۔

امريکی محکمہ خزانہ نے اپنی "فیکٹ شیٹ" کو جاری کرتے ہوۓ اس بات پر زور ديا تھا کہ وہ اس بات کو يقينی بنايئں گے کے طالبان اور حقانی نیٹ ورک پرلگائی جانے والی امریکی پابندیاں افغانستان ميں بسنے والے عوام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔

صدر جو بائیڈن (فائل)
صدر جو بائیڈن (فائل)

اس سال کے شروع میں امريکی صدر جو بائیڈن نے بھی ایک صدارتی حکم نامے يا ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت نیویارک میں افغان مرکزی بینک کے کل اثاثوں میں سے سات بلین ڈالر کوغيرمنجمد کر دیا گیا تھا۔ بايئڈن انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ عدالت سے اجازت طلب کرے گی کہ يہ اثاثے ایک ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کر دیے جائیں اور ان غير منجمد اثاثوں ميں سے ساڑھے تين بلين ڈالر افغانستان ميں انسانی بحران ميں امداد کے ليے جب کہ بقيہ ساڑھے تين بلين گيارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے متاثرین کے ليے مختص کيے گۓ تھے جس پر بايئڈن انتظاميہ کو زبردست تنقيد کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا ۔

ليکن کيا اس زلزلے کے بعد امداد اور تعمیر نو میں مدد کے لیے افغان حکومت کے اثاثوں کو غیر منجمد کیا جائے گا، اس سلسلے میں وائس آف امریکہ نے محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا مگر اب تک کوئی جواب موصول نہيں ہوا ہے۔

سٹيمسن سينٹر کی جنوبی ايشيا کی ڈائريکٹر الیزبیتھ تھریرکیلڈ کے مطابق غیر منجمد اثاثوں کا افغانستان پہنچنا اتنا آسان نہيں، "گو کہ بايئڈن انظاميہ يہ چاہتی ہے کہ يہ پيسہ افغانستان کو درپيش انسانی بحران کی طرف لگے مگرساڑھے تين بلين ڈالر کی يہ رقم نیویارک کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک طویل قانونی عمل کے اتظار میں بند ہے"

کابل میں طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی کے مطابق اس وقت لوگ اور امدادی ایجنسیاں جو خاندانوں کی زندگیوں کی تعمیر نو میں مدد کرنا چاہتے ہیں، رقم بھیجنے سے قاصر ہیں - اکثریت نےاپنے واحد کمانے والے کو زلزلے میں کھو دیا ہے، " اس ظلم کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے"

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشير جیک سلیوان اور امریکی وزیر خارجہ، اینٹی بلنکن زلزلے کے بعد اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ، "امریکہ کو افغانستان کے لیے انسانی امداد کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہونے پر فخر ہے، اور ہمارے انسانی ہمدردی کے شراکت دار پہلے ہی زمین پر طبی دیکھ بھال اور پناہ گاہوں کی فراہمی کا کام کر رہے ہیں‘۔ بیان میں کہا گیا کہ صدر بائیڈن پیش رفت کی نگرانی کر رہے ہیں اور انہوں نے یو ایس ایڈ اور دیگر وفاقی حکومت کے شراکت داروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ متاثرہ افراد کی مدد کے لیے امریکی اختیارات کا جائزہ لیں۔

اليزبتھ تھريرکيلڈ کے مطابق:

"یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا پہلے ہی زلزلے کے بعد افغانستان کے لیے امداد کا وعدہ کر چکے ہیں، اور بھارت اور پاکستان دونوں نے امدادی سامان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، انسانی ہمدردی کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ذریعے کام کرنا چاہيے جو پہلے ہی علاقے میں سرگرم ہیں۔"

اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امداد کے مطابق طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے لے کر اس سال فروری تک، افغانستان کودرپيش انسانی بحران سے نمٹنے کے ليے تقریباً ايک اعشاریہ چھ بلين ڈالرکی بين الاقوامی امداد فراہم کی جا چکی ہے جس ميں سے سب سے زيادہ امداد امريکہ نے فراہم کی ہے جو تقريبا 421 ملين ڈالر ہے۔

عبدالقہار بلخی کے مطابق اس وقت متاثرین کو فوری طور پر خوراک، پینے کے پانی، ادویات، موبائل میڈیکل ٹیموں، گرم کپڑوں اور پناہ گاہوں کی ضرورت ہے جس کے لیے تمام ممالک سميت بین الاقوامی تنظیموں سے بھی فراخدلانہ امداد کی اپيل کی گئی ہے۔ طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ انہيں قطر، ایران اور پاکستان سے امداد پہنچی ہے، جس میں ادویات اور خیمے وغيرہ شامل ہيں۔

XS
SM
MD
LG