افغانستان کے چیف اگزیکٹو، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ جاری چار فریقی امریکہ، افغان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بات چیت کا مقصد افغان امن عمل میں مدد دینا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہمیں امید ہے کہ مشرق وسطیٰ کی کشیدگی اور دیگر نوعیت کا عالمی تناؤ افغان صوت حال پر کسی طور منفی اثر نہیں ڈالے گا‘‘۔
عبداللہ عبداللہ نے یہ بات منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو دیے گئے انٹرویو میں کہی ہے۔
اس ضمن میں اُنھوں نے اسلامی ملکوں کی تنظیم (او آئی سی) کے سعودی عرب میں منعقدہ اجلاس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ’’افغانستان اپنے تمام اتحادیوں سے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اُس ہمسایہ ملک پر زور دیں گے جو طالبان کا حامی ہے‘‘۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’ابھی تک امن کے حصول کے معاملے میں پیش رفت سامنے نہیں آئی‘‘۔ ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ ’’امن کوششیں جاری رکھی جانی چاہئیں‘‘۔
طالبان کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے بارے میں ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ’’جنوبی ایشیا سے متعلق نئی امریکی پالیسی میں طالبان اور دہشت گرد گروپوں کے ایک ہمسایہ ملک میں موجود محفوظ ٹھکانوں کو ہدف بنایا جانا شامل ہے۔‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’کسی امن عمل میں امریکہ نے ہمیشہ افغان مفادات کا دفاع کیا ہے‘‘۔
ایک اور سوال پر اُنھوں نے کہا کہ ’’کچھ ملکوں کا طالبان پر اثر و رسوخ ہے اور اُن سے رابطہ ہے‘‘؛ اور اِس توقع کا اظہار کیا کہ ’’ایسے ملک اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امن و استحکام کے لیے کام کریں گے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں کشیدگی جاری رہنے کا کسی ملک کو فائدہ نہیں ہوگا‘‘۔
رشید دوستم کی وطن واپسی سے متعلق ایک سوال پر ڈاکڑ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ وہ نائب صدر کے طور پر پنے فرائض انجام دیتے رہیں گے، جب کہ وفد کے ترکی آنے جانے کے معاملے کے آئینی مضمرات زیر غور ہیں۔
یہ معلوم کرنے پر کہ پاکستان کے انتخابات سے اُن کی کیا توقعات وابستہ ہیں، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ افغانستان انتخابی نتائج پر نگاہ رکھے گا۔ لیکن، انتخابات کا اثر تبھی پڑے گا کہ سولین اور سکیورٹی اسٹیبلش منٹ دونوں مل کر یہ فیصلہ کریں کہ افغانستان میں عدم استحکام کی اجازت نہیں دی جائے گی، یا پھر طالبان کو امن مذاکرات کا پابند کریں گے۔
داعش کے بارے میں سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں دولت اسلامیہ کی قیادت کو ہلاک کیا گیا ہے اور وہ زیادہ طاقتور نہیں بن پائی‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں ہونے والی زیادہ تر ہلاکتیں طالبان کی کارستانی ہے، اور آئے دِن وہی دھماکوں اور حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’وقت آگیا ہے کہ دوست ملک افغانستان میں امن کو تقویت دینے کے لیے آگے بڑھیں، چونکہ افغانستان کا امن ہی سبھی کے مفاد میں ہے‘‘۔