|
گوجرانوالہ — ’’احتشام خاندان کا لاڈلا تھا۔ وہ کرکٹ کا بہت شوقین تھا۔ اس کا ایک ہی جنون تھا کہ ایک دن آئے گا جب وہ یورپ جائے گا اور گھر سے غریبی ختم ہو جائے گی۔‘‘
یہ کہنا ہے یونان میں کشتی حادثے میں لاپتا ہونے والے 35 سالہ احتشام انجم کے قریبی رشتے دار فضل الرحمان کا، جو منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ میں ایک گاؤں ہیلاں کے رہائشی ہیں۔ احتشام انجم بھی اسی علاقے کا مکین تھا۔
کشتی حادثے کے بعد یونان میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے زندہ بچ جانے والے 47 افراد کی جو ابتدائی فہرست جاری کی ہے اس میں احتشام کا نام شامل نہیں ہے۔
فہرست جاری ہونے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ٹیمیں گاؤں ہیلاں اور دیگر علاقوں میں پوچھ گچھ کر رہی ہیں اور اس کشتی میں سوار افراد کے اہلِ خانہ سے تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ منڈی بہاؤالدین سے 20 کلومیٹر دور گاؤں ہیلاں کے 10 نوجوان اس کشتی پر سوار تھے جو کہ حادثے کا شکار ہوئی ہے۔ ان 10 میں سے صرف ایک نوجوان ہارون اصغر کو ریسکیو کیے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔
ہارون اصغر نے کشتی حادثے کے بعد اہلِ خانہ کو میسجنگ ایپلی کیشن پر وائس میسج بھی ارسال کیے ہیں۔
ہیلاں گاؤں میں چھ گھر ایسے ہیں جہاں مقامی افراد پیر کی شب افسوس کرنے کے لیے آ رہے تھے۔ ان گھروں کے نوجوان ہی اس حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں سوار تھے۔ تاحال لاپتا نوجوانوں کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ملی کہ آیا وہ زندہ ہیں۔
اس گاؤں سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والوں میں 35 سالہ احتشام انجم ولد ذوالفقار، 32 سالہ عبد الرحمان ولد شفیق، 30 سالہ فہد خالد ولد محمد خالد، 28 سالہ انس اسلم ولد اسلم ، 25 سالہ محمد ایاز ولد محمد ریاض اور مختار احمد شامل ہیں۔
احتشام انجم کے رشتے دار فضل الرحمان کہتے ہیں کہ لوگوں کے آنے اور اظہارِ افسوس کے باوجود اہلِ خانہ یہی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہو اور ان کے گھر کا فرد زندہ بچ جائے۔
ریسکیو کیے گئے افراد میں کم عمر لڑکے بھی شامل
یونان میں پاکستان کے سفارت خانے نے زندہ بچنے والے جن 47 افراد کی فہرست جاری کی ہے اس پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس میں 12 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں۔ 14 برس کے راحت دلاور اور 15 سال کے محمد صفدر وہ خوش قسمت ہیں جنہیں ریسکیو کیا گیا ہے۔
اسی طرح 17 سال کے تین، 18 سال کے چار اور 19 برس کے تین لڑکوں کو بھی ریسکیو کیا گیا۔
اس کے علاوہ کشتی میں 20 سال کے پانچ ، 21 سال کے دو ، 22 سال کے پانچ ، 23 سال کے تین اور 24 سال کے تین نوجوان تھے جن کی جان بچ گئی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے یونان میں کشتی الٹنے کے واقعے میں چار پاکستانیوں کی موت کی تصدیق کی ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ یونانی حکام کی فراہم کردہ تازہ معلومات کے مطابق کشتی الٹنے کے واقعے میں ہلاک پاکستانیوں کی تعداد چار ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں پاکستانی مشن زندہ بچ جانے والوں کی مدد اور میتوں کی وطن واپسی کے لیے مقامی حکام سے رابطے میں ہے۔
ریسکیو کیے گئے افراد کے اہلِ خانہ کو ویڈیو پیغامات
یونان کشتی حادثے میں بچنے والے کچھ افراد نے اپنے گھر ویڈیو پیغامات ارسال کیے ہیں۔
ان ویڈیوز میں انہوں نے اپنے ساتھ اس سفر میں پیش آنے والے حادثے کی تفصیلات بھی بتائی ہیں اور دیگر لوگوں سے اپیل کی ہے آئندہ کوئی اس راستے سے یورپ جانے کی کوشش نہ کرے۔
زندہ بچ جانے والے 21 سالہ ہارون اصغر کے رشتے دار فیصل نے وائس آف امریکہ کو دو ویڈیوز فراہم کی ہیں جو وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کر چکے ہیں۔
یہ ویڈیو کلپس یونان کے دارالحکومت ایتھنز کے نواحی علاقے مالا کاسا کیمپ میں ریکارڈ کیے گئے ہیں جہاں یونان کشتی حادثے میں زندہ بچنے والے پاکستانیوں کو رکھا گیا ہے۔
ایک ویڈیو میں گجرات کے ایک نوجوان نے بتایا کہ پاکستان میں بہت مشکل حالات تھے۔ وہاں سے بھاگ کر لیبیا آئے۔ لیبیا آکر بھی لگ بھگ ڈیڑھ سے دو ماہ ایجنٹوں کے ہاتھوں تکالیف برداشت کیں۔
لیبیا کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں نہ کھانا میسر تھا اور نہ پانی دیا جاتا تھا۔ کپڑے بھی ساتھ نہیں تھے اور نہ ہی کسی کو فون کرنے کی سہولت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ لیبیا سے یورپ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ٹھیک نہیں تھی۔ اس کا انجن خراب تھا اور اس میں کمیونی کیشن کے لیے لگا ہوا سسٹم اور جی پی ایس بھی کام نہیں کر رہے تھے۔
ان کے بقول کشتی چلانے والا بھی اناڑی تھا۔ راستے میں اس نے ایک کارگو جہاز والوں کو کہا کہ ان مسافروں کو اپنے ساتھ لے جائے۔ کارگو جہاز میں بیٹھنے کے عمل کے دوران ہی ہماری کشتی الٹ گئی۔ کارگو جہاز والوں نے ہمیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن ہمارا سب کچھ پانی میں ڈوب گیا۔
’کشتی کارگو بحری جہاز سے ٹکرائی تھی‘
سیالکوٹ کے رہائشی ایک اور نوجوان نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ وہ 10 اور 11 دسمبر کی درمیانی شب لیبیا سے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے بقول سمندری سفر پر روانہ ہونے سے قبل موسم چیک کرنا چاہیے تھا کیوں کہ سمندر میں حالات بہت خراب تھے۔ طوفانی لہریں بار بار آ رہی تھیں۔ 13 اور 14 دسمبر کی درمیانی شب کشتی کو حادثہ پیش آیا۔
نارووال کے مکین ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ لیبیا سے یورپ کی ڈنکی لگا رہے تھے۔ یونان کے قریب کشتی کو حادثہ پیش آیا۔ سمندری لہریں بہت تیز تھیں۔ تین دن سمندر میں کھلے آسمان تلے گزارنے پڑے۔
اس نوجوان کا مزید کہنا تھا کہ کشتی کا ایک انجن بند ہو گیا تھا جب کہ دوسرا انجن بار بار جھٹکے لے رہا تھا۔
ان کے بقول کشتی کارگو بحری جہاز سے ٹکرائی جس کے سبب وہ اُلٹ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ کشتی کافی چھوٹی تھی جس پر گنجائش سے زیادہ لگ بھگ 80 افراد سوار تھے۔ زندہ بچنے والوں میں سوڈان کا ایک اور مصر کے دو شہری تھے جب کہ باقی سب پاکستانی ہیں۔
گجرات کے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ سمندر میں ہمارا سارا سامان بہہ گیا جو کچھ دیا یونان کی حکومت نے دیا ہے۔
ان کے بقول اب ہمیں جیکٹس اور جوتے چاہیں کیوں کہ یہاں سردی ہے اور ٹھنڈ سے برا حال ہے۔ موبائل فون نہ ہونے کی وجہ سے گھر والوں کے ساتھ رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
حادثے میں ریسکیو کیے گئے ایک اور نوجوان نے بتایا کہ ’’ہم ڈیڑھ گھنٹہ پانی میں تیرتے رہے۔ ہماری کشتی ایک بار الٹنے کے بعد سیدھی ہوئی۔ لیکن وہ پانی میں مسلسل گھومتی رہی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حادثہ اس قدر بھیانک تھا کہ بتایا نہیں جا سکتا۔ ہم مشکل سے ہی جانیں بچا سکے ہیں۔
پاکستان سے یورپ پہنچانے کے نرخ
انسانی اسمگلنگ میں سب سے اہم کردار ایجنٹ کا سامنے آتا ہے اور اس حادثے کے بعد بھی ایک مقامی ایجنٹ کا نام سامنے آ رہا ہے جو کہ ہیلان گاؤں کا ہی رہائشی ہے۔
یونان میں کشتی حادثہ ہونے کے بعد سے وہ ایجنٹ مسلسل غائب ہے جب کہ گاؤں میں اس کے گھر پر تالا لگا ہوا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ایک ٹیم نے رات گئے جب ہیلان گاؤں کا دورہ کیا اور کشتی میں سوار بعض نوجوانوں کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی تو لوگوں نے اسی ایک ایجنٹ کا نام بتایا۔
ایک شہری نے ایف آئی اے کو بیان دیا کہ ایجنٹ نے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچانے کے لیے 40، 40 لاکھ روپے طلب کیے تھے جب کہ بھاؤ تاؤ کے بعد معاملہ 35 لاکھ روپے فی کس میں طے پایا تھا۔
بیان کے مطابق ایجنٹ نے گاؤں والوں سے کہا تھا کہ وہ لیبیا سے کشتی کے ذریعے پہلے یونان اور پھر اٹلی پہنچائے گا اور یہ سفر محفوظ ہوگا اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
اسی شہری نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے لیبیا سے انہیں کال کر کے بتایا تھا کہ یہاں سے اٹلی پہنچانے کے پانچ ہزار ڈالر لیتے ہیں اور پاکستان میں موجود ایجنٹس کا لیبیا کے ان ایجنٹوں کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے۔
ان کے بقول غیر قانونی تارکینِ وطن کے رش کے سبب ڈیڑھ دو ماہ تک باری نہیں آتی جس کی وجہ سے نوجوان لیبیا میں کیمپوں میں بھوکے پیاسے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
احتشام انجم کے رشتے دار فضل الرحمان کہتے ہیں کہ لوگوں کی لالچ بڑھ رہی ہے۔ چار سال قبل بھی اسی گاؤں کے چار نوجوان یورپ جانے کی کوشش میں کشتی حادثہ کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے تھے۔
ان کے بقول "اس واقعے کے بعد تاریخ نے خود کو دہرایا ہے۔ اب اموات چار سے بڑھ کر شاید نو ہوگئی ہیں۔ لیکن لوگ اپنے بیٹوں کو مرنے کے لیے چھوڑتے رہیں گے، جوان لڑکوں کی اموات کا زخم کچھ دن تک رہے گا اس کے بعد پھر کوئی ایجنٹ آکر انہیں سبز باغ دکھائے گا تو لوگ پھر سے اپنے بیٹوں کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔"