رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت بحال کر دی ہے جب کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے خصوصی عدالت کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی بینچ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کے ورثا کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے ان سے رابطے کے لیے بیرون ملک اور ملک کے اندر رابطے کی کوشش کی گئی۔ اس حوالے سے نوٹس دو اخبارات میں بھی شائع کیے گئے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے کیس میں یہ سوال بھی تھا کہ کیا پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل سنی جا سکتی ہے یا نہیں۔ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کے مطابق ان کے ورثا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ عدالت نے بھی ورثا کے تمام ایڈریسز پر نوٹسز بھیجے۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ پرویز مشرف کے ورثا کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ موجودہ صورتِ حال میں اور ورثا کی طرف سے سامنے نہ آنے پر پرویز مشرف کی اپیل خارج کر دی گئی۔

قبل ازیں درخواست گزاروں کے وکیل حامد خان نے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ یہ اپیل فوج داری معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ درخواست لاہور ہائی کورٹ کے سزا کالعدم کرنے کے خلاف ہے جو آئینی معاملہ ہے، دونوں اپیلوں کو الگ الگ کرکے سنا جائے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار اور اپیل دو الگ معاملات ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں خصوصی عدالت نے 2019 میں سابق صدر پرویز مشرف کو آئین سے غداری کے الزامات کے تحت پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ تاہم لاہور ہائی نے اس عدالت کے قیام کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

خصوصی عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو پھانسی دینے کے فیصلے کے بعد افواجِ پاکستان کے ترجمان نے اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔

اس وقت کی حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے اور ان کی دماغی صحت کا معائنہ کرانے کا کہا تھا۔

کرونا وبا کے دنوں میں نومبر 2020 میں جسٹس وقار سیٹھ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں کرونا کی وجہ سے وفات پا گئے تھے۔

تفصیلی فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرم کو گرفتار کر کے سزائے موت پر عمل درآمد کرائیں۔

واضح رہے کہ نومبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجینسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی جب کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جون 2013 میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی منظوری دی تھی۔

پرویز مشرف کے اقدامات پر اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارتِ داخلہ کو خط لکھا تھا جس پر وزارتِ داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔

اس وقت وزارتِ قانون کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا قرار پایا تھا۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چھ سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔

خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت ملک سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد میں گھسیٹ کر لایا جائے اور تین دن تک ان کی لاش وہاں لٹکائی جائے۔

مقدمے کے دوران خصوصی عدالت کے ججز بھی تبدیل ہوتے رہے۔

جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت سات ججز نے مقدمہ سنا۔ آخر کار 17 دسمبر 2019 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم تین رکنی خصوصی عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور اس کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جنوری 2020 کو میں جسٹس مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں بینچ عدالتی کارروائی کالعدم قرار دی تھی۔ واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی اس وقت سپریم کورٹ کے جج ہیں۔

پاکستان بار کونسل نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس میں موقف اختیار کیا کہ آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل کی گئی اس لیے یہ لاہور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

اسی طرح سپریم کورٹ میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی سنائی گئی سزا کے خلاف بھی اپیل دائر کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ پرویز مشرف 2016 میں علاج کی غرض سے ملک سے باہر چلے گئے تھے جس کے بعد وہ وطن واپس نہیں آئے تھے۔

سابق صدر گزشتہ برس پانچ فروری 2023 میں طویل علالت کے بعد دبئی کے اسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ بعد ازاں ان کی کراچی میں سرکاری اعزازت کے ساتھ تدفین کی گئی تھی۔

XS
SM
MD
LG