افغانستان میں عام شہریوں کے جانی نقصان کے حوالے سے رواں سال بہت بھاری ثابت ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2009 کے بعد سے موجودہ سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ عورتیں اور بچنے ہلاک ہوئے ہیں۔ عالمی ادارے نے جنگ سے متاثرہ اس ملک میں انسانی ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں کا ریکارڈ رکھنا سال 2009 کے بعد سے شروع کیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کے ابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں 47 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے معاونتی مشن (یو این اے ایم اے) نے کہا ہے کہ اس سال کی پہلی ششماہی میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 5200 کے لگ بھگ ہے، جس میں 1659 ہلاکتیں شامل ہیں۔ یہ تعداد 2020 کی اسی مدت کے مقابلے میں 47 فی صد زیادہ ہے۔
شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کی وجہ امریکی فورسز کا انخلا ہے۔ اقوام متحدہ
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عام شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ مئی میں اس وقت ہوا جب امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے باضابطہ طور پر افغانستان سے اپنے فوجی نکالنا شروع کیے، جس کے نتیجے میں کابل حکومت کی سرکاری فورسز اور طالبان عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائیوں میں شدت آئی۔
یو این اے ایم اے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی اور جون کے مہینوں میں مجموعی طور پر 2392 عام شہری ہلاک و زخمی ہوئے جن میں 783 ہلاکتیں اور 1609 زخمی تھے۔ یہ تعداد 2009 سے، جب سے اس سلسلے میں ریکارڈ رکھا جانے لگا ہے، سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً نصف تعداد عورتوں، لڑکیوں اور لڑکوں کی ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تشدد کے واقعات میں کمی لانے کے اقدامات نہ کیے گئے تو صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔
افغان اضلاع پر قبضے کے متضاد دعوے
طالبان کا دعویٰ ہے کہ اس وقت وہ ملک کے 85 فی صد رقبے پر قابض ہیں۔ تاہم، پینٹاگان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے تقریباً نصف اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے جب کہ افغان حکومت طالبان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس کی فورسز طالبان کے قبضے میں جانے والے علاقے ان سے چھین رہی ہیں۔
آزاد ذرائع سے ان دعوؤں کی تصدیق ممکن نہیں ہے، کیونکہ امن و امان کے خراب حالات کی وجہ سے متاثرہ علاقوں تک رسائی دشوار ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مئی اور جون میں زیادہ تر لڑائیاں شہری علاقوں سے باہر ہوئیں۔ عالمی ادارے کو خدشہ ہے کہ جب فوجی کارروائیاں گنجان آباد علاقوں میں ہوں گی تو ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ جائے گی۔
رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ اس مسئلے کے فوجی حل سے صرف افغان عوام کی مشکلات میں ہی اضافہ ہو گا۔
بے گھر ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد میں اضافہ
طالبان کی پیش قدمی اور دور افتادہ اضلاع پر قبضوں اور سرکاری فورسز کے ساتھ جھڑپوں اور لڑائیوں میں اضافوں سے بے گھر ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پناہ گزینوں کے ادارے کا کہنا ہے کہ لڑائیوں سے بچنے کے لیے 22 ہزار سے زیادہ خاندان محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔ زیادہ تر بے گھر افراد ملک کے اندر ہی ہیں اور اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لینے کے بعد امداد کے منتظر ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسکولوں میں اس وقت 12 ہزار سے زیادہ بے گھر خاندان مقیم ہیں۔
کچھ پناہ گزین پڑوسی ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ تاہم افغانستان کے ہمسایہ ملک سرحد پار کرنے والے پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آنے سے روک رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوری سے اب تک دو لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افغان باشندے بے گھر ہوئے ہیں جس سے بے گھر ہونے والوں کی مجموعی تعداد 35 لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔
عام شہریوں کی ہلاکتوں کی زیادہ ذمہ داری حکومت مخالف فورسز پر ہے
رپورٹ میں عام شہریوں کی 64 فی صد ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت مخالف فورسز کو قرار دیا گیا ہے جب کہ 39 فی انسانی جانوں کے نقصان کی ذمہ داری طالبان اور 9 فی صد کی داعش سے منسلک گروپ پر ڈالی گئی ہے؛ جب کہ طالبان عام لوگوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار سرکاری فورسز کی گولاباری اور فضائی کارروائیوں کو قرار دیتے ہیں۔
امریکہ طالبان کے خلاف افغٖان فورسز کی فضائی مدد جاری رکھ سکتا ہے
امریکہ کے ایک سینئر کمانڈر نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنے والی افغان فورسز کی مدد کے لیے فضائی کارروائیاں جاری رکھے گا۔
طالبان نے صدر بائیڈن کی جانب سے 20 سالہ افغان جنگ ختم کرنے کے لیے 31 اگست تک اس ملک سے اپنی تمام فورسز نکال لینے کے اعلان کے بعد حالیہ ہفتوں میں کئی دیہی اور صوبائی دارالحکومتوں کے گرد و نواح میں واقع اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
یو ایس میرین جنرل کیتھ فرینک مک کنزی نے کابل میں اتوار کے روز ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ امریکہ نے گزشتہ کئی دنوں سے افغان فورسز کی مدد کے لیے فضائی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اور اگر طالبان نے اپنے حملے جاری رکھے تو ہم آئندہ ہفتوں میں اپنی اس مدد میں اعلیٰ ترین سطح تک اضافے کے لیے تیار ہیں۔
مک کینزی نے، جو امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ ہیں، جس میں افغانستان کا خطہ بھی شامل ہے، امریکی فورسز کے انخلا سے متعلق اس سوال کا جواب دینے سے احتراز کیا کہ آیا امریکہ 31 اگست کے بعد بھی افغان فورسز کی مدد کے لیے اپنی فضائی کارروائیاں جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کی حکومت کو ایک مشکل امتحان کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ طالبان اپنی مہم کو ایک یقینی صورت حال کی جانب بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کو فتح سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، اس مسئلے کا حل سیاسی طور پر ہی ہو گا۔
دوسری جانب دوحہ میں کابل حکومت اور طالبان کے سیاسی نمائندوں کے درمیان ملاقات ہوئی ہے، جس کے متعلق دونوں فریقوں کا کہنا ہے کہ بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔
ہفتے کے روز امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ اس وقت افغان سیکیورٹی فورسز کا اولین کام یہ یقینی بنانا ہے کہ وہ طالبان کی پیش قدمی کی رفتار کو روک سکیں۔
افغانستان کا استحکام خطے کے ممالک کے مفاد میں ہے، امریکہ
افغانستان کی تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال پر خطے کا ایک اہم ملک بھارت بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ بھارت نے افغانستان کے انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس کے ہزاروں کارکن وہاں کام کر رہے ہیں۔
بھارت کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے، جو سرکاری دورے پر نئی دہلی آ رہے ہیں، مذاکرات کے دوران توجہ انڈوپیسفک ریجن، افغانستان اور کووڈ-19 کی صورت حال پر مرکوز رہے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان چین بھی ایک موضوع ہوگا، کیونکہ چین سے کئی امور میں امریکہ اور بھارت دونوں کو اختلافات ہیں۔
امریکی عہدے دار یہ کہہ چکے ہیں کہ بلنکن بھارت پر یہ زور دیں گے کہ وہ افغانستان میں استحکام لانے کے لیے مدد کرے۔
وسطی اور جنوب ایشیا کے لیے امریکہ کے سفارت کار ڈین تھامسن نے کہا ہے کہ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ افغانستان کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں خطے کے تمام ملکوں کا مشترکہ مفاد ہے۔ ہم وزیر خارجہ بلنکن کے دورہ بھارت پر نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ اس ہدف کے حصول کے لیے یہ دونوں شراکت دار مل کر کام کر سکتے ہیں۔