"رات کو ہر طرف گولیوں کی گونج سنائی دیتی ہے جن علاقوں پر طالبان قابض ہیں وہاں دن کے وقت جنگی طیارے بمباری کرتے ہیں۔ لوگ خوف زدہ اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔”
یہ کہنا ہے بشیر نادم کا جو گزشتہ 18 برس سے افغانستان کے شہر قندھار میں صحافتی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بشیر نادم نے بتایا کہ قندھار کے 17 اضلاع میں سے 12 پر طالبان کو مکمل کنٹرول ہے وہاں مواصلات کا نظام درہم برہم ہے۔ حکومت کی رٹ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جب کہ اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں اور لوگ خوف کے مارے محفوظ ٹھکانوں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے نہ صرف عام عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہیں بلکہ افغان نیشنل آرمی کے سیکڑوں فوجی جان بچانے کی غرض سے سرحد عبور کر چکے ہیں۔
افغان نیشنل آرمی کے درجنوں اہل کاروں کی پاکستان میں پناہ
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے پیر کو جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق گزشتہ شب افغان نیشنل آرمی اور بارڈر پولیس کے پانچ افسران سمیت 46 اہل کاروں نے ارونڈو–چترال سرحد سے ملحقہ علاقے میں سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر پناہ اور محفوظ گزرگاہ کے لیے درخواست کی جسے پاکستان فوج نے قبول کرتے ہوئے انہیں آنے کی اجازت دی۔
بیان کے مطابق اس سے قبل یکم جولائی کو 35 افغان فوجیوں کو بھی پاکستانی سرحد آنے کی اجازت دی گئی تھی جنہیں بعد میں با عزت طریقے سے افغان حکام کے حوالے کیا گیا۔
قندھار میں مقیم صحافی بشیر نادم شہر میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو پولیس کی نا اہلی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر امن و امان کی ذمے داری پولیس کی ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں پولیس حکومت کے بجائے شخصیات کے تابع ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب افغانستان کی اسپیشل فورسز طالبان کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ بہت جلد چھینے گئے تمام علاقے طالبان کے کنٹرول سے آزاد کرا لیے جائیں گے۔
بشیر نادم کے مطابق افغان سپیشل فورسز کی پہلی ترجیح طالبان کی پیش قدمی روکنا ہے۔ اس کے بعد ان تمام علاقوں کی جانب پیش قدمی ہو گی جو کہ حالیہ ہفتوں میں ان سے چھینے گئے ہیں۔
بشیر نادم کا مؤقف ہے کہ طالبان لوگوں کے گھروں میں مورچہ زن ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغان فورسز کو آپریشن میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے باعث افغانستان پر جہاں ایک طرف خانہ جنگی کے بادل منڈلا رہے ہیں وہیں ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کر کے دربدر ہو گئے ہیں۔
ہزاروں افغان شہری سر چھپانے اور پر سکون مقامات کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
لگ بھگ 22 ہزار گھرانوں کی نقل مکانی
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قندھار میں مہاجرین کے لیے قائم ادارے کے سربراہ، دوست محمد نایاب کا کہنا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں 22 ہزار سے زائد خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس ضمن میں بے گھر افراد کے لیے ایک عارضی کیمپ بنایا ہے جس میں تین وقت کی روٹی کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر لڑائی مزید طول پکڑتی ہے تو مزید شہری در بدر ہونے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار کو طالبان کے 1996 سے 2001 کے دورِ اقتدار کے دوران مرکزی حیثیت حاصل رہی تھی۔
چھ لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل قندھار کابل کے بعد افغانستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔
دوست محمد نایاب کا مزید کہنا تھا کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ لڑائی تاحال جاری ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں اجناس کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی اشیا کی بھی قلت ہو سکتی ہے۔
افغانستان کے بیشتر علاقوں میں رات کا کرفیو
دوسری جانب تشدد اور طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے افغانستان کے 34 میں سے 31 صوبوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جس کے مطابق رات 10 بجے سے صبح چار بجے کے درمیان کسی قسم کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہو گی۔ کابل، پنج شیر اور ننگرہار کو کرفیو سے استثنیٰ حاصل ہے۔
طالبان جنگجو امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد تیزی سے شہری علاقوں، سرحدی گزرگاہوں اور دیگر علاقوں کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان آدھے سے زائد افغانستان پر قبضے کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم حکومت اس دعوے کو رد کرتی ہے۔
بشیر نادم کا مزید کہنا تھا کہ قندھار شہر کے نواح میں طالبان اور افغان اسپیشل فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان کی دھمکیوں کے باعث رات 10 بجے سے صبح چار بجے تک مواصلات کا نظام معطل رہتا ہے۔