امداد فراہم کرنے والے ممالک نے افغانستان میں تعمیر و ترقی کے عمل میں تعاون کے لیے آئندہ چار برسوں کے دوران 16 ارب ڈالر کی فراہمی کا اعلان کیا ہے۔
ٹوکیو میں اتوار کو ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے ملک کے لیے چار ارب ڈالر کی سالانہ امداد کی درخواست کی تھی۔
کانفرنس سے افتتاحی خطاب میں صدر کرزئی نے افغانستان میں بد عنوانی کے خلاف کوششیں تیز کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ افغانستان میں عدم استحکام پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔
مسٹر کرزئی نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران ان ممالک کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی امداد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت کو اجاگر کیا۔ مگر اُن کا کہنا تھا کہ یہ کامیابیاں پائیدار نہیں۔
’’افغانستان کو بدستور دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے جو اکیلے افغانستان کی سلامتی پر اثر انداز نہیں ہو رہے ہیں۔ بلا شبہ (ہمارا) خطہ اور تمام دنیا اُس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مسئلہ برقرار ہے، جسے افغانستان کی سرحدوں سے آگے خطے کے بعض علاقوں میں پناہ گاہیں اور حمایت حاصل ہے۔‘‘
افغان صدر نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بدعنوانی کی وجہ سے افغانستان میں امدادی کارروائیں متاثر ہو رہی ہیں۔
’’بدعنوانی بالخصوص ایک ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے اداروں کی کارکردگی، اجتماعیت اور ان کے جواز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘
اُنھوں نے افغان حکومت کی طرف سے انسداد بدعنوانی کا عزم دہراتے ہوئے عالمی برادری سے بھی ایسا ہی کرنے کی درخواست کی۔
’’ہمیں مل جل کر اُن سرگرمیوں کو روکنا ہے جن سے بدعنوانی نش و نما پاتی ہے۔‘‘
ٹوکیو ڈونرز کانفرنس کے آغاز سے قبل ہفتہ کو کابل کے غیر اعلانیہ دورے کے موقع پر امریکہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے افغانستان کو اہم غیر نیٹو اتحادی ملک کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس اقدام سے افغانستان کو سلامتی سے متعلق معاملات میں امداد کی فراہمی میں ناصرف اضافہ اور تیزی آئے گی بلکہ اس کی امریکی ساخت کے فوجی ساز و سامان تک رسائی بھی آسان ہو جائے گی۔
ٹوکیو میں اتوار کو ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے ملک کے لیے چار ارب ڈالر کی سالانہ امداد کی درخواست کی تھی۔
کانفرنس سے افتتاحی خطاب میں صدر کرزئی نے افغانستان میں بد عنوانی کے خلاف کوششیں تیز کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ افغانستان میں عدم استحکام پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔
مسٹر کرزئی نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران ان ممالک کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی امداد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت کو اجاگر کیا۔ مگر اُن کا کہنا تھا کہ یہ کامیابیاں پائیدار نہیں۔
’’افغانستان کو بدستور دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے جو اکیلے افغانستان کی سلامتی پر اثر انداز نہیں ہو رہے ہیں۔ بلا شبہ (ہمارا) خطہ اور تمام دنیا اُس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مسئلہ برقرار ہے، جسے افغانستان کی سرحدوں سے آگے خطے کے بعض علاقوں میں پناہ گاہیں اور حمایت حاصل ہے۔‘‘
افغان صدر نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بدعنوانی کی وجہ سے افغانستان میں امدادی کارروائیں متاثر ہو رہی ہیں۔
’’بدعنوانی بالخصوص ایک ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے اداروں کی کارکردگی، اجتماعیت اور ان کے جواز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘
اُنھوں نے افغان حکومت کی طرف سے انسداد بدعنوانی کا عزم دہراتے ہوئے عالمی برادری سے بھی ایسا ہی کرنے کی درخواست کی۔
’’ہمیں مل جل کر اُن سرگرمیوں کو روکنا ہے جن سے بدعنوانی نش و نما پاتی ہے۔‘‘
ٹوکیو ڈونرز کانفرنس کے آغاز سے قبل ہفتہ کو کابل کے غیر اعلانیہ دورے کے موقع پر امریکہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے افغانستان کو اہم غیر نیٹو اتحادی ملک کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس اقدام سے افغانستان کو سلامتی سے متعلق معاملات میں امداد کی فراہمی میں ناصرف اضافہ اور تیزی آئے گی بلکہ اس کی امریکی ساخت کے فوجی ساز و سامان تک رسائی بھی آسان ہو جائے گی۔