رسائی کے لنکس

بلوچستان: سیکیورٹی فورسز کا 27 علیحدگی پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ


لوگ ایک جلی ہوئی گاڑی کو دیکھ رہے ہیں جسے مسلح افراد نے 26 اگست 2024 کو پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے ضلع موسی خیل میں ایک شاہراہ پر مسافروں کو ہلاک کرنے کے بعد نذر آتش کر دیا تھا۔
لوگ ایک جلی ہوئی گاڑی کو دیکھ رہے ہیں جسے مسلح افراد نے 26 اگست 2024 کو پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے ضلع موسی خیل میں ایک شاہراہ پر مسافروں کو ہلاک کرنے کے بعد نذر آتش کر دیا تھا۔
  • پاکستان میں ایک فوجی بیان میں بلوچستان میں 27 علیہدگی پسند باغیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
  • اعلان کے مطابق ہلاک شدگان ضلع میں سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کے خلاف مبینہ"دہشت گردانہ سرگرمیوں" کے لیے مطلوب تھے۔
  • VOA فوری طور پر آزاد ذرائع سے سرکاری دعووں کی تصدیق نہیں کر سکا اور نہ ہی بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے ان پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔
  • گزشتہ ہفتے،بھاری ہتھیاروں سے لیس بی ایل اے کے درجنوں جنگجوؤں نے بلوچستان کے ضلع خضدار کے زہری قصبے پر حملہ کیاتھا۔

پاکستان میں ایک فوجی بیان میں پیر کو اطلاع دی گئی ہے کہ اس کی سیکیورٹی فورسز نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں "دہشت گردوں کے ٹھکانے" پر چھاپہ مارکر مبینہ 27 باغیوں کو اس کارووائی کے دوران ہلاک کر دیا جسے انٹیلیجنس پر مبنی آپریشن سے تعبیر کیا گیاہے۔

فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ کم آبادی والے صوبے کے وسطی کچھی ضلع میں آپریشن کے دوران "متعدد خفیہ ٹھکانوں کو اور اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد کو بھی تباہ کر دیا گیا"۔

اعلان میں بتایا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ہلاک شدگان ضلع میں سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کے خلاف مبینہ"دہشت گردانہ سرگرمیوں" کے لیے مطلوب تھے، جہاں کالعدم علیحدگی پسند بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور اس کے اتحادی سرگرم ہیں۔

VOA فوری طور پر آزاد ذرائع سے سرکاری دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا اور نہ ہی بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے ان پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔

علاقائی ماہرین بی ایل اے کو، ایران اور افغانستان سے ملحق پاکستان کی سرحد پر واقع، قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان میں سرگرم تمام علیحدگی پسند گروپوں میں سب سے بڑا گروپ قرار دیتے ہیں۔

امریکہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کردہ اس گروپ نے حالیہ مہینوں میں تقریباً ان تمام مقامی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں خاص طور پر سکیورٹی فورسز کے ارکان سمیت سیکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئےہیں ۔

گزشتہ ہفتے ضلع خضدار کے زہری قصبے پر حملہ

گزشتہ ہفتے،بھاری ہتھیاروں سے لیس بی ایل اے کے درجنوں جنگجوؤں نے بلوچستان کے ضلع خضدار کے زہری قصبے پر حملہ کیا۔ علیہدگی پسند گروپ اور پاکستانی حکام کے مطابق، انہوں نے مختصر وقت کے لیے سرکاری تنصیبات پر کنٹرول حاصل کر لیاتھا، جس میں ایک سیکیورٹی تنصیب بھی شامل تھی، اور کئی عمارتوں کو آگ لگانے اور علاقے سے فرار ہونے سے پہلے ایک بینک کو لوٹ لیا۔

بدھ کی دوپہر ان مسلح افراد نے لیویز تھانے، نادرا آفس سمیت دیگر املاک کو نذرِ آتش کر دیا تھا۔ مسلح افراد نے زہری کے بازار میں داخل ہو کر لوگوں کو ہراساں بھی کیا جب کہ سرکاری اہلکاروں کو بھی یرغمال بنا لیا تھا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے حالیہ کارروائیوں میں اضافے سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ ان کی افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

زہری واقعے پر ردِ عمل دیتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا ہے کہ عوام کے تحفظ اور ریاستی رٹ کی بحالی اسکی اولین ترجیح ہے۔

دن دہاڑے باغیوں کے اس حملے نے بی ایل اے کے حملوں پر پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ردعمل میں مبینہ تاخیر کے حوالے سے تنقید کو جنم دیا۔

انگریزی زبان کے اخبار ’ڈان‘ نےحملے کے بعد اپنے ایک اداریے میں لکھا، ’’ذمہ داروں کو یہ بتانا چاہیے کہ دہشت گرد آٹھ گھنٹے تک اس علاقے پر کس طرح کمانڈ کرنے میں کامیاب رہے۔

صوبائی حکومت نے حملے کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا، جس کے نتیجے میں نیم فوجی دستے، بلوچستان لیویز فورس کے ایک درجن سے زیادہ ارکان کو باغیوں کے خلاف مزاحمت کرنے میں مبینہ ناکامی اور ان کے سامنے ہتھیار ڈال دینے پر برطرف کر دیا گیا۔

باغیوں کا الزام ہے کہ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں بلوچستان کے سونے اور تانبے جیسے قدرتی وسائل کا استحصال کرتے ہوئے غربت کی شکار مقامی آبادی کو نظر انداز کرتی ہیں۔

اسلام آباد ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیے کر مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صوبے میں بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبے جاری ہیں جن میں چین کی فنڈنگ سے چلنے والے پراجیکٹ بھی شامل ہیں۔

بی ایل اے نے اس علاقے میں ایسے بعض منصوبوں سے وابستہ چینی شہریوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے حملے میں اضافہ کیوں؟

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کی جانب سے کارروائیوں میں اضافے سے بظاہر لگتا ہے کہ ان کی افرادی قوت اور وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رشید بلوچ کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران صوبے میں بد امنی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ 2024 میں بی ایل اے کی جانب سے بیک وقت 18 سے 20 مقامات پر حملے کیے گئے۔

اس سے قبل مچھ میں بھی حملہ آور دن کی روشنی میں شہر میں داخل ہوئے اور گلی محلوں میں گھومتے پھرتے دکھائی دیے۔

زہری واقعے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ یہ واقعہ سیکیورٹی لیپس کی وجہ سے رونما ہو ا ہو تاہم بلوچستان کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے لیے ہر جگہ سیکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہے۔

ان کے بقول: بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں مسلح تنظیموں کو پہاڑی سلسلے کے باعث کافی سپورٹ ملتی ہے اور جس کی بنا پر وہ اپنی کارروائیوں میں بظاہر کامیاب نظر آتے ہیں۔

یہ رپورٹ ایاز گل اور غلام مرتضیٰ زہری کی اطلاعات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG