افغانستان نےکہا ہے کہ طالبان بغاوت کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے وعدوں پر’’نمایاں پیش رفت‘‘ دیکھانے کی ضرورت ہے۔
اتوار کو کابل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان جانان موسٰی زئی نے کہا کہ اگرچہ پاکستان نے بارہا طالبان رہنماؤں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا وعدہ کیا لیکن اب تک اُس نے ایسا نہیں کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے افغانستان نے خیر سگالی اور سیاسی رابطوں کے ذریعے باہمی اعتماد کا ایک ماحول پیدا کیا ہے۔ لیکن ترجمان کے بقول بدقسمتی سے افغان حکومت کی توقعات کے برعکس پاکستان کی جانب سے اُس پیش رفت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے جس کا اُس نے افغانستان سے وعدہ کر رکھا ہے، خصوصاً طالبان قیادت یا کسی دوسرے ایسے باغی گروہوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بارے میں کیے گئے وعدے جو افغان مصحالتی عمل کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں۔
جانان موسٰی زئی نے کہا کہ ایک افغان وفد جلد پاکستان بھیجا جا رہا ہے جو اپنے ہم منصبوں سے امن کے عمل اور اِن الزامات پر بھی بات چیت کرے گا کہ سابق صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کی سازش میں پاکستان نے بھی کردار ادا کیا۔
ایک روز قبل صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان کو مذاکرات میں دوسرا فریق بنانا ہوگا۔ مبصرین کے خیال میں افغان صدر کے بیان میں بظاہر طالبان اور دیگر باغی تنظیموں کے ان مبینہ ٹھکانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو سرحد کی دوسری جانب پاکستان میں قائم ہیں اور جو افغان جنگ کے خاتمے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔
لیکن افغانستان اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں حالیہ دنوں میں اُن الزامات کے بعد بہت زیادہ خراب ہو گئے ہیں کہ باغی تنظیمیں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی ایما اور حمایت سےافغانستان میں غیر ملکی اور مقامی اہداف پر حملے کر رہی ہیں۔
لیکن ہفتہ کو ایک بیان میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پاکستان پر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے افغان قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ شکوک و شبہات کی روش ترک کر کے باہمی تعاون سے معاملات کو حل کرنے پر توجہ دے کیونکہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے استحکام کو یقینی بنائے گا۔