ہفتے کو ایک خودکش بم حملہ آور نے کابل کے شمال میں واقع ایک پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس دوران دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک جب کہ 60 زخمی ہوئے۔
ہلاک ہونے والوں میں آٹھ پولیس والے تھے، جنھوں نے سکیورٹی کی پہلی چوکی پر حملہ آور کو روکا، جب اُس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد کو بھک سے اُڑا دیا۔ یہ بات افغان وزارت داخلہ کے معاون ترجمان نصرت اللہ رحیمی نے بتائی ہے۔
ہفتے کے روز افغانستان میں پارلیمانی انتخابات ہوئے جس دوران دن بھر کئی مقامات پر وقفے وقفے سے حملوں کی اطلاعات آتی رہیں؛ جب کہ یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ رائے دہی میں شرکت کے لیے لاکھوں افراد طویل قطاروں میں کھڑے رہے۔
طالبان نے پولنگ اسٹیشنوں پر حملوں اور الیکشن کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کی کئی بار دھمکیاں دے رکھی تھیں۔ تاہم، رجسٹرڈ ووٹروں نے دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ووٹ ڈالے۔
کابل میں ایک خاتون ووٹر نے بتایا کہ ''ہمارے اوپر دھمکیوں کا اثر نہیں ہوتا، چونکہ ہم اپنے ملک کی تعمیر کے خواہاں ہیں۔ آج ہمیں بہت ساری دھمکیاں مل چکی تھیں، لیکن ہم ووٹ دینے کے لیے باہر نکلے ہیں''۔
ملک بھر میں موجود 'وائس آف امریکہ' کی ٹیموں نے اطلاع دی کہ ووٹ ڈالنے کے لیے بہت سارے لوگ باہر نکلے، اور ہر پولنگ اسٹیشن پر لوگوں کی قطاریں لگی رہیں۔
افغانستان کے آزاد انتخابی کمیشن کے سربراہ، گل جان سید نے بتایا ہے کہ مقامی وقت کے مطابق دو بجے شام تک ملک کے 27 صوبوں میں 20 لاکھ سے زائد ووٹر اپنا حق رائےدہی استعمال کر چکے ہیں۔ کابل میں سب سے زیادہ ووٹر باہر نکلے جن کی تعداد 638000 بتائی جاتی ہے۔ فریاب میں سب سے کم ووٹ ڈالے گئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ دیگر پانچ صوبوں سے ابھی تک اطلاعات دستیاب نہیں ہوپائیں، اور توقع ہے کہ ہفتے کی رات گئے تک مزید اطلاعات موصول ہوجائیں گی۔
ووٹنگ افغانستان کے 34 میں سے 32 صوبوں میں ہوئی۔ قندھار میں ایک ہفتے کے لیے ووٹنگ موخر کی گئی ہے، جہاں جمعرات کے روز حملے میں بااثر کمانڈر، جنرل عبدالرازق ہلاک ہوئے، جس حملے کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے۔
غزنی میں مقامی آبادی میں جاری سیاسی تنازع کے باعث انتخابات آئندہ سال تک موخر کیے گئے ہیں۔
دریں اثنا، اقوام متحدہ کے اعانتی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے)نے ایک اخباری بیان میں ہفتے کے روز ملک میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ''ووٹروں کی دلچسپی اور بڑی تعداد میں آئینی حق استعمال کرنے کے جذبے'' کی تعریف کی ہے، تاکہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں۔
بیان کے مطابق، ''سال 2001ء کے بعد یہ پہلے انتخابات تھے جنھیں مکمل طور پر افغان حکام کی نگرانی کرایا گیا، جو خودانحصاری کی جانب بڑھنے کا افغانستان کے عبوری دور کا ایک اہم سنگ میل ہے''۔
اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ ''دھمکیوں کے باجود لاکھوں افغان شہریوں نے پولنگ میں حصہ لیا، جب کہ انتخابی عمل میں انتظامی اور تکنیکی مشکلات حائل تھیں اور وہ لمبی قطاروں میں کھڑے رہے، تاکہ اپنا مستقبل سنوارنے کے کام میں شریک ہو سکیں''۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ''ایسے ووٹر تعریف کے حقدار ہیں جنھوں نے اپنی معاشرتی ذمے داری پوری کی۔ پھر ایسے افراد جو ووٹ دینے کے اہل تھے لیکن تکنیکی بنیاد پر وہ اپنا حق استعمال نہ کر سکے، اُنھیں رائے دہی کا پورا حق ہے''۔
مشن نے توجہ دلائی کہ ''افغان انتخابی حکام کو فوری اقدام کرنا چاہیئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ کوئی تکنیکی بنیادوں پر ووٹ کا حق استعمال نہ کرنے سے نہ رہ جائے۔ ملک میں کئی مقامات پر ایسے پولنگ اسٹیشن تھے جہاں ووٹ ڈالنے کے لیے درکار اضافی وقت دیا گیا؛ جو آج زیادہ وقت کے لیے کھلے نہیں رہے اُنھیں اِس کا کل موقع دیا جائے گا''۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مشن نے یہ بات بھی ریکارڈ کی ہے کہ ''قندھار میں انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، تاکہ وہاں آئندہ ہفتے کے روز پولنگ کرائی جا سکے، جہاں سلامتی سے متعلق حالیہ واقعات کے نتیجے میں ووٹنگ کو ایک ہفتے کے لیے موخر کیا گیا تھا''۔