افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں ایک روز قبل ہونے والے حملے میں اعلیٰ حکام کی ہلاکت کے بعد افغان حکومت نے صوبے میں عام انتخابات کو ایک ہفتے کے لیے مؤخر کردیا ہے۔
افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے ترجمان حفیظ اللہ ہاشمی نے جمعے کو صوبے میں انتخابات کے التوا کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قندھار پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرازق کی ہلاکت کے بعد صوبے کے لوگ "نفسیاتی طور پر ووٹ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔"
جنرل عبدالرازق جمعرات کو قندھار کے گورنر کے دفتر میں ہونے والی فائرنگ میں مارے گئے تھے۔
فائرنگ گورنر زلمی ویسا کے ایک محافظ نے اس وقت کی تھی جب صوبائی قیادت اور افغانستان میں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملرکے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد اجلاس کے شرکا واپس روانہ ہو رہے تھے۔
حکام کے مطابق اجلاس ہفتے کو ملک بھر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا۔
فائرنگ سے افغان انٹیلی جنس ادارے 'این ڈی اے' کے صوبائی سربراہ بھی مارے گئے تھے جب کہ گورنر شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
حملے میں جنرل اسکاٹ ملر محفوظ رہے تھے لیکن امریکی حکام نے کہا ہے کہ فائرنگ سے دو امریکی زخمی ہوئے ہیں۔
حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان کا نشانہ جنرل عبدالرازق ہی تھےجن کا شمار افغانستان کے جنوبی علاقوں میں طالبان کے مضبوط ترین مخالفین میں ہوتا تھا۔
جنرل عبدالرازق پر اس سے قبل بھی درجنوں قاتلانہ حملے ہوچکے تھے۔ جمعرات کے حملے میں ان کی ہلاکت نے افغان حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ جنوبی افغانستان خصوصاً قندھار جیسے اہم صوبے میں اپنے سب سے اہم اہلکار سے محروم ہوگئی ہے۔
لیکن امریکی وزیرِ دفاع جِم میٹس نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ جنرل عبدالرازق کی ہلاکت سے افغانستان میں امریکی فوج کے مشن اور ملک میں اس کی نقل و حرکت پر کوئی اثر پڑے گا۔
جمعے کو سنگاپور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میٹس نے کہا کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ جنرل عبدالرازق کی ہلاکت کے افغانستان پر کیا اثرات پڑیں گے لیکن فی الحال ان کے بقول ان کی توجہ افغان انتخابات پر مرکوز ہے۔
انتخابات کی سکیورٹی پر سوالیہ نشان
ہفتے کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے عین قبل قندھار جیسے اہم صوبے کی پوری قیادت کے حملے میں ہلاک یا زخمی ہونے کے واقعے نے بھی انتخابات کے دوران سکیورٹی کی صورتِ حال پر پہلے سے موجود خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
طالبان نے رواں ماہ کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 20 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے انعقاد میں مدد دینے والے حکام اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنائیں گے۔
طالبان نے انتخابات کو امریکہ کے افغانستان پر قبضے کو جواز فراہم کرنے والا عمل قرار دیتے ہوئے افغان عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ انتخابی عمل سے دور رہیں۔
اس اعلان کے بعد سے طالبان ملک کے مختلف صوبوں میں انتخابی جلسوں اور امیدواروں پر کئی حملے کرچکے ہیں جن میں اب تک درجنوں افراد مارے جاچکے ہیں۔
افغان طالبان نے جمعے کو ایک بار پھر افغان عوام کو انتخابات سے دور رہنے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہفتے کو اپنے گھروں سے نہ نکلیں۔
طالبان ترجمان کی جانب سے قندھار حملے کے ایک روز بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تحریک کے جنگجو انتخابات کے دوران سڑکیں بند کردیں گے اور "صورتِ حال پر کڑی نظر رکھیں گے۔"
افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے اعانتی مشن نے انتخابی عمل کے خلاف طالبان کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جنگجووں پر زور دیا ہے کہ وہ اسکولوں اور ان دیگر عمارتوں کو نشانہ بنانے سے گریز کریں جہاں پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔
ہفتے کو ہونے والے انتخابات کے لیے پورے افغانستان میں سکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔
انتخابات کو افغان حکومت کی ساکھ اور ملک بھر میں انتخابات کرانے کی اس کی صلاحیت کا امتحان بھی قرار دیا جا رہا ہے جس کے اثرات آئندہ سال اپریل میں ہونے والے زیادہ اہم صدارتی انتخابات پر بھی پڑیں گے۔