اسلام آباد —
پاکستان میں قانون ساز پڑوسی ملک افغانستان میں ہونے والے انتخابات کو اپنے ملک کے لیے بھی ایک اچھا شگون قرار دے رہے ہیں۔
ہفتہ کو ہونے والے افغان صدارتی انتخابات میں آٹھ امیدوار مدمقابل ہیں جن میں سے نئے صدر کے انتخاب کے لیے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد ہے۔
سبکدوش ہونے والے صدر حامد کرزئی کی صدارت کے دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن پاکستانی قانون ساز اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں نئے صدر کے انتخاب سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
ایوان بالا کے رکن سینیٹر حاجی عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں انتخابات کو پاکستان کے لیے بھی اہم قرار دیا۔
’’اس سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان جمہوریت کے راستے پر چل رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ ۔ ۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک میں جمہوریت آئے گی تو اس کے پاکستان پر بھی اچھے اثرات پڑیں گے اگر وہاں طالبانائزیشن پھر ہو گئی تو اس کے تو پہلے بھی اثرات ہمارے قبائلی علاقوں پر پڑے ہیں۔ وہاں کوئی تحریک ایسی چلتی ہے تو اس کے بھی اثرات پاکستان کے علاقوں پر ہی پڑتےہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی دھمکیوں اور سکیورٹی خدشات کے باوجود انتخابی مہم کی گہما گہمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغان عوام جمہوری عمل کے حامی ہیں۔
’’ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایک امیدوار کے جلسے میں دو لاکھ تک لوگ آئے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سنتے ہیں کہ طالبان نے وہاں حملہ کر دیا اور انھوں نے دھمکی دی کہ کوئی حصہ نہ لے تو جس طرح وہاں جلسے جلوس ہوئے، امیدواروں اور لوگوں نے گرمجوشی سے حصہ لیا تو ا س سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان نے جو اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لوگوں نے اسے مسترد کردیا ہے۔‘‘
سینیٹر عثمان سیف اللہ نے بھی وی او اے سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کیا کہ افغان عوام ایسی قیادت منتخب کریں گے جو خطے میں امن و استحکام کے لیے کام کرے گی۔
’’امید اور دعا ہے کہ جو بھی حکومت آئے گی وہ ذمہ دار ہو گی جو پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہے گی اگر دوستانہ نہ بھی ہوں مگر جارحانہ نا ہوں، (تعلقات) باہمی احترام پر مبنی ہوں اس سے پاکستان میں افغانستان میں امن و ترقی آئے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان جنگ کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کے بعد پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پڑوسی ملک میں پرامن انتقال اقتدار کے اثرات سے یہ خطہ مستفید ہو۔
پاکستان کی حکومت بھی یہ کہتی آئی ہے کہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان خود اس کے مفاد میں ہے اور وہ وہاں امن عمل کی حمایت جاری رکھے گی۔
پاکستان دنیا بھر میں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اب بھی یہاں لگ بھگ تیس لاکھ افغان باشندے مقیم ہیں۔
ہفتہ کو ہونے والے افغان صدارتی انتخابات میں آٹھ امیدوار مدمقابل ہیں جن میں سے نئے صدر کے انتخاب کے لیے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد ہے۔
سبکدوش ہونے والے صدر حامد کرزئی کی صدارت کے دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن پاکستانی قانون ساز اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں نئے صدر کے انتخاب سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔
ایوان بالا کے رکن سینیٹر حاجی عدیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں انتخابات کو پاکستان کے لیے بھی اہم قرار دیا۔
’’اس سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان جمہوریت کے راستے پر چل رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ ۔ ۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک میں جمہوریت آئے گی تو اس کے پاکستان پر بھی اچھے اثرات پڑیں گے اگر وہاں طالبانائزیشن پھر ہو گئی تو اس کے تو پہلے بھی اثرات ہمارے قبائلی علاقوں پر پڑے ہیں۔ وہاں کوئی تحریک ایسی چلتی ہے تو اس کے بھی اثرات پاکستان کے علاقوں پر ہی پڑتےہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی دھمکیوں اور سکیورٹی خدشات کے باوجود انتخابی مہم کی گہما گہمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ افغان عوام جمہوری عمل کے حامی ہیں۔
’’ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایک امیدوار کے جلسے میں دو لاکھ تک لوگ آئے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سنتے ہیں کہ طالبان نے وہاں حملہ کر دیا اور انھوں نے دھمکی دی کہ کوئی حصہ نہ لے تو جس طرح وہاں جلسے جلوس ہوئے، امیدواروں اور لوگوں نے گرمجوشی سے حصہ لیا تو ا س سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان نے جو اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لوگوں نے اسے مسترد کردیا ہے۔‘‘
سینیٹر عثمان سیف اللہ نے بھی وی او اے سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کیا کہ افغان عوام ایسی قیادت منتخب کریں گے جو خطے میں امن و استحکام کے لیے کام کرے گی۔
’’امید اور دعا ہے کہ جو بھی حکومت آئے گی وہ ذمہ دار ہو گی جو پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہے گی اگر دوستانہ نہ بھی ہوں مگر جارحانہ نا ہوں، (تعلقات) باہمی احترام پر مبنی ہوں اس سے پاکستان میں افغانستان میں امن و ترقی آئے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان جنگ کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کے بعد پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پڑوسی ملک میں پرامن انتقال اقتدار کے اثرات سے یہ خطہ مستفید ہو۔
پاکستان کی حکومت بھی یہ کہتی آئی ہے کہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان خود اس کے مفاد میں ہے اور وہ وہاں امن عمل کی حمایت جاری رکھے گی۔
پاکستان دنیا بھر میں افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اب بھی یہاں لگ بھگ تیس لاکھ افغان باشندے مقیم ہیں۔