رسائی کے لنکس

افغان سرحدی علاقے میں بمباری، پکتیکا ہی نشانہ کیوں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • لگ رہا ہے کہ پکتیکا میں حملہ ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے خطرے اور افغانستان سے منسلک چیلنجز کے ردِ عمل میں کیا گیا ہے، تجزیہ کار
  • حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے باعث ٹی ٹی پی کے اراکین کو افغانستان بھر میں آزادانہ نقل و حرکت حاصل ہے، حسن خان
  • ٹی ٹی پی اب نئی حکمتِ عملی کے تحت بلوچستان کے پختون اضلاع ژوب اور قلعہ سیف اللہ کے راستے شدت پسندوں کو پاکستان میں داخل کروا رہی ہے، سیکیورٹی افسر
  • ریاستِ پاکستان افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ نظریاتی وابستگی اور قریبی تعلقات کا درست تجزیہ نہیں کر سکی، سیکیورٹی اہلکار
  • طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے ثبوت فراہم کیے لیکن افغانستان نے تحفظات کو دور کرنے کے لیے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا، حکام

کراچی _ افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیکا کا ضلع برمل حالیہ بمباری کے باعث ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گیا ہے جب کہ پاک افغان امور کے ماہرین پاکستان کی اس مبینہ کارروائی کو ردِعمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

افغان طالبان انتظامیہ کی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ 24 دسمبر کی شام پاکستان نے برمل کے مضافاتی علاقوں میں بمباری کی۔

افغان حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے حملے میں 46 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر وہ مہاجرین شامل ہیں جو پاکستانی علاقے وزیرستان سے ہجرت کر کے برمل میں مقیم تھے۔

افغان طالبان کی جانب سے پاکستان پر مبینہ فضائی کارروائی پر جواب دینے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔

جمعرات کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے سرحدی علاقوں میں کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹیلی جینس معلومات پر سرحدی علاقے میں کارروائی کی گئی۔

ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی پاکستان کے شہریوں کو درپیش سیکیورٹی خطرات کی بنیاد پر کی گئی۔

دوسری جانب پاکستان میں سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ برمل میں کی جانے والی کارروائی میں دہشت گرد ٹھکانوں اور خودکش بمباروں کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو مبینہ طور پر پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔

حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ نشانہ بنائے گئے مراکز میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حافظ گل بہادر گروپ کے جنگجو تربیت حاصل کر رہے تھے۔

یہ حملہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اس علاقے میں پاکستان کی جانب سے تیسری بڑی کارروائی ہے۔ رواں برس مارچ میں بھی پاکستان نے پکتیکا اور خوست میں کارروائی کی تھی اور اسے انٹیلی جینس معلومات کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائی قرار دیا تھا۔

اس سے قبل اپریل 2022 میں بھی پاکستانی فضائیہ نے افغان صوبے کنڑ اور خوست میں حملے کیے تھے۔

برمل میں پاکستانی شدت پسندوں کی مبینہ موجودگی

جون 2014 میں کراچی ایئر پورٹ حملے کے ایک ہفتے بعد پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن 'ضربِ عضب' شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد ٹی ٹی پی، حافظ گل بہادر گروپ، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔

زمینی اور فضائی حملوں کے ذریعے ان شدت پسندوں کو شمالی وزیرستان سے بے دخل کیا گیا، جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کے شدت پسندوں اور ان کے خاندانوں کو افغانستان کے سرحدی صوبوں کی جانب منتقل ہونا پڑا۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان کے شدت پسند افغان صوبے پکتیکا، خصوصاً ضلع برمل میں مقیم ہوئے جب کہ سوات، باجوڑ، مہمند اور خیبر سے تعلق رکھنے والے جنگجو افغان صوبوں کنڑ اور ننگرہار منتقل ہوئے۔

ٹی ٹی پی کے موجودہ امیر مفتی نور ولی محسود نے اپنی کتاب 'انقلابِ محسود' میں 2014 کے آپریشن کے بعد شدت پسندوں کی افغانستان ہجرت اور برمل میں آباد ہونے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔

’دورانِ ہجرت افغانستان میں محسود مجاہدین پر امریکی چھاپوں کی روداد‘ کے عنوان سے مضمون میں نور ولی محسود لکھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی تنظیم نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں ترک کر دی تھیں لیکن پاکستان میں کارروائیاں جاری رکھی تھیں۔

کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی دسمبر 2007 میں تشکیل سے قبل بھی شمالی و جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے شدت پسند پکتیکا اور دیگر صوبوں میں افغان سیکیورٹی فورسز اور نیٹو اتحادی فورسز کے خلاف کارروائیوں میں فعال رہے تھے۔

افغانستان کے یہ علاقے شروع سے ہی طالبان کی شاخ حقانی نیٹ ورک کے زیرِ اثر ہیں جس کے موجودہ رہنما سراج الدین حقانی ہیں اور وہ اس وقت افغانستان کی انتظامیہ کے وزیرِ داخلہ ہیں۔

حالیہ حملے کی ٹائمنگ

اسلام آباد میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار حسن خان کے مطابق افغانستان میں پاکستان کے حالیہ حملے کئی اہم واقعات سے جڑے ہیں۔

ان کے بقول، پکتیکا میں فضائی حملہ جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے حالیہ حملے کے چند دن بعد کیے گئے، جس میں 16 پاکستانی سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔

حسن خان نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ پکتیکا میں حملہ ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے خطرے اور افغانستان سے منسلک چیلنجز کے ردِ عمل میں کیا گیا ہے۔

پاک افغان امور کے ماہرین کے مطابق، افغان طالبان میں ٹی ٹی پی کی حمایت کے حوالے سے واضح تقسیم پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کو ٹی ٹی پی کے لیے مضبوط حمایت فراہم کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔

حسن خان کا کہنا ہے کہ "حقانی نیٹ ورک کی حمایت کے باعث ٹی ٹی پی کے اراکین کو افغانستان بھر میں آزادانہ نقل و حرکت حاصل ہے۔ تاہم، ان کے جنگجو زیادہ تر افغانستان کے علاقوں جیسے خوست، پکتیا، پکتیکا، اور غزنی میں مرتکز ہیں، جو حقانی نیٹ ورک کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔"

ان کے بقول، ماضی میں جب ٹی ٹی پی اندرونی اختلافات اور گروپوں میں تقسیم کا شکار تھی، تو حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں نے ان اختلافات کو ختم کیا اور پاکستان اور افغانستان دونوں میں چھوٹے گروپوں کو مرکزی ٹی ٹی پی میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔

بلوچستان میں تعینات ایک سیکیورٹی افسر نے بتایا ہے کہ ٹی ٹی پی اب نئی حکمتِ عملی کے تحت بلوچستان کے پختون اضلاع ژوب اور قلعہ سیف اللہ کے راستے شدت پسندوں کو پاکستان میں داخل کروا رہی ہے۔

ان کے بقول، یہ شدت پسند خیبرپختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، اور دیگر علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے سرحد پار سے آنے والے کئی شدت پسندوں کو نشانہ بھی بنایا ہے۔

پاکستان کے چیلنجز

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافے ہوا ہے۔ حالیہ حملوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور چینی باشندے خاص طور پر نشانہ بنے۔

پاکستانی حکومت نے بارہا افغان طالبان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے۔ اس دباؤ میں افغانستان میں فضائی حملے، افغان مہاجرین کے زبردستی انخلا اور پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو محدود کرنے جیسے اقدامات بھی کیے گئے۔ تاہم، افغان طالبان حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کے ثبوت فراہم کیے، لیکن افغانستان نے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔

سیکیورٹی ماہرین کے مطابق، اس صورت حال کا کچھ حد تک تعلق پاکستان کی ناقص افغان پالیسی سے بھی ہے۔

جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا، تو پاکستانی حکام خصوصاً عسکری قیادت یہ امید کر رہی تھی کہ طالبان حکومت پاکستانی مفادات کو ترجیح دے گی اور انہیں توقع تھی کہ اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتوں کے برعکس طالبان، افغانستان میں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کر دیں گے۔

تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی یہ امیدیں دم توڑ گئیں۔

اسلام آباد میں تعینات ایک اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار کے مطابق، "افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں مزید مضبوط کیا اور انہیں وسائل فراہم کیے جس سے تنظیم کو مزید تقویت ملی۔

سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریاستِ پاکستان افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ نظریاتی وابستگی اور قریبی تعلقات کا درست تجزیہ نہیں کر سکی۔ یہ لاعلمی اس حد تک تھی کہ گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کے اتحادی سمجھے جانے والے افغان طالبان کے ساتھ اب تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔

اسلام آباد میں مقیم سینئر تجزیہ کار ضیغم خان کے خیال میں افغانستان پاکستان کو ایک آسان ہدف سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کو دہشت گردی کے ذریعے دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں ضیغم خان نے کہا کہ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ پاکستان پر دہشت گردی کے سنگین نتائج مرتب نہیں ہوں گے۔ جب تک افغانستان کی یہ رائے تبدیل نہیں ہوتی، اس کے رویے میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG