افغانستان میں طالبان کے سخت گیر دور حکومت میں خواتین کو ان کے زیادہ ترحقوق سے محروم رکھا گیا۔ انہیں کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی ، یہی وجہ تھی کہ وہ کھیلوں میں بہت کم ہی حصہ لے پاتی تھیں۔لیکن اب جبکہ ایک عشرے سے زیادہ عرصہ گذر گیا ہے کابل میں خواتین کا ایک گروپ نہ صرف باکسنگ سیکھ رہا ہے بلکہ اس سٹیڈیم میں کھیل بھی رہا ہے جسے ایک زمانے میں طالبان سزاے موت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
یہ نوجوان خواتین افغانستان کے رسم و رواج کے برعکس کابل کے ایک جم میں باکسنگ کر رہی ہیں ۔ یہ افغانستان میں خواتین کی قومی باکسنگ ٹیم کی کھلاڑی ہیں۔
اس ٹیم کو 2007ء میں ملک کے اولمپک کمشن نے تشکیل دیا تھا ۔19 سالہ شبنم رحیمی آغاز سے ہی اس ٹیم کی رکن ہیں۔
شبنم جنگ اور تشدد کے دوران پلی بڑھی ہیں۔ یہاں پر اسے ایک ایسی خاتون کی حیثیت سے تربیت دی جارہی ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑ سکتی ہے۔
ان خواتین کا کہنا ہے کہ باکسنگ سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے ، جسے وہ اپنی مستقبل کی نسلوں میں منتقل کرنا چاہتی ہیں۔
یہ خواتین ہر ہفتے یہاں آتی ہیں ۔ باکسنگ ان کا کھیل اور ان کا جنون ہے۔حقیقت میں یہ برسوں کے جبر کے خلاف ان کی ذاتی جنگ ہے۔ اگرچہ یہ جم ان کے لیے ٕمحفوظ اور حکومت سے منظور شدہ ہے۔ مگر جب وہ باہر نکلتی ہیں تو ابھی بھی انہیں طالبان کا خوف رہتا ہے ۔ ٹیم کے ٹرینر محمد صابر شریفی کا کہنا ہے کہ روشن خیال افغانوں کو خطرات کا سامنا ہے۔
منتظمین کو امید ہے کہ ان کی ٹیم دوہزار بارہ لندن اولمپک گیمز میں حصہ لے گی ۔یہ مقابلہ محض ایک چیمپین شپ کےلیے نہیں ہے بلکہ ایک روشن خیال افغانستان کے لیے ہے۔