افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی تبادلے لیے اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ فریقین کے مطابق قیدیوں کی رہائی کا عمل 31 مارچ سے شروع ہوگا۔
قیدیوں کی رہائی کے لیے اتفاق رائے بدھ کو وڈیو کانفرنس پر منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے دوران ہوا۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق اجلاس چار گھنٹے تک جاری رہا۔ جس میں طالبان، کابل حکومت، عالمی امدادی تنظیم آئی سی آر سی، قطر اور امریکہ کے نمائندے بھی شریک تھے۔
سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اجلاس میں قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ طالبان اور کابل حکومت میں اتفاق ہو گیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل 31 مارچ سے شروع ہو گا۔
یادر ہے کہ قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ طے پانے والے امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہونا تھا لیکن صدر اشرف غنی نے امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی سے انکار کر دیا تھا۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹ میں مزید کہا کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل 31 مارچ سے شروع ہوگا۔ طالبان اپنے قیدیوں کی شناخت کے لیے ایک تیکنیکی وفد بگرام جیل بھیجیں گے۔
تیکنیکی وفد بھیجنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وفد کی موجودگی سے پہلے سے فراہم کردہ فہرست کے تحت طالبان قیدیوں کی رہائی سے قبل شناخت اور تصدیق ہو سکے گی۔
بدھ کو ہونے والے اجلاس میں طالبان کا تیکنیکی وفد شریک ہوا جب کہ افغان حکومت کی نمائندگی امن سے متعلق ابتدائی رابطہ گروپ نے کی۔
افغانستان کی قومی سلامتی کونسل نے بدھ کو ہونے والے اجلاس کی ٹوئٹر پر تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید تبادلہ خیال اور صدر اشرف غنی کے فرمان کے مطابق انسانی بنیادوں پر 100 طالبان قیدیوں کو 31 مارچ تک رہا کیا جائے گا لیکن طالبان کو اس بات کی ضمانت دینا ہو گی کہ رہا ہونے والے طالبان قیدی دوبارہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔
قومی سلامتی کونسل کے مطابق مزید تبادلہ خیال کے لیے طالبان کا وفد کابل حکومت کے حکام سے افغانستان میں ملاقات کرے گا۔
ادھر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کے لیے ہونے والی پیش رفت کو مثبت قرار دیا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے تیکنیکی وفود کی ملاقاتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ یہ (امن) عمل بہتر طریقے سے جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے قبل افغان حکومت نے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا جس کے بدلے میں طالبان نے بھی افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کرنے تھے۔
لیکن افغان صدر اشرف غنی نے بین الافغان مذاکرات سے پہلے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہو سکے تھے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا تو بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔