افغان دارالحکومت کابل میں ہونے والے قومی امن جرگے کے مندوبین کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں تقریباً نو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کی صدر حامد کرزئی کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔
تین روز تک جاری رہنے والے امن جرگے میں ملک بھر سے تقریباً 1600عمائدین،سیاستدان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افرادنے شرکت کی
مختلف ٹولیوں میں آپس میں بحث ومباحثے کے بعد جمعے کو شرکا اپنی سفارشات کوحتمی شکل دینے کے لیے ایک بار پھرمرکزی ہال میں جمع ہوئے۔مجوزہ تجاویز میں طالبان کے ساتھ گفت وشنید کے لیے ایک کمیشن کے قیام کی سفارش بھی شامل ہے۔
جرگے کے دوران مندوبین کے مابین یہ معاملہ بھی زیر بحث آیا کہ عسکریت پسند گروہوں سے مذاکرات کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی پیشگی شرائط ہونی چاہیئں یا نہیں۔بعض مندوبین کی خواہش تھی کہ امریکہ اپنے جیلوں میں موجود ایسے طالبان جن پر فردجرم عائد نہیں کی گئی ، کو رہا کرے ۔ دیگر شرکا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ طالبان رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے خارج کرے۔
واضح رہے کہ بدھ کو شروع ہونے والے اس جرگے کے آغاز ہی میں خودکش طالبان حملہ آوروں نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن افغان سکیورٹی فورسز نے اسے ناکام بناتے ہوئے دو حملہ آوروں کو ہلاک اور ایک کو گرفتار کرلیا۔
طالبان باغیوں نے جرگے کے انعقاد سے پہلے ہی ایک بیان میں افغان حکومت کی امن کی اس کوشش کو یہ کہ کر مسترد کردیا تھا کہ غیر ملکی افواج کی افغانستان سے واپسی تک وہ بات چیت کے کسی عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔
افغان حکومت نے طالبان سے یہ مطالبہ کررکھا ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر اور تشدد کی راہ ترک کردیں اور آئین کو قبول کریں۔