اقتصادی تعاون تنظیم ’ای سی او‘ کا سربراہ اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے، جس میں شرکت کے لیے رکن ممالک کے سربراہان پاکستان پہنچے ہیں۔
لیکن افغانستان کی قیادت اس علاقائی سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی اور کابل کی نمائندگی اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان قیادت کی طرف سے ’ای سی او‘ سربراہ اجلاس میں شرکت نا کرنے کی ایک بڑی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی حالیہ کشیدگی ہے۔
’’افغانستان کے صدر اشرف غنی یا چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نا آنے کی وجہ تو بہت واضح ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کافی خرابی پیدا ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے افغانستان نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے صرف اپنے سفیر کی سطح پر (کانفرنس میں) نمائندگی کی ہے۔‘‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ ’ای سی او‘ سربراہ اجلاس خطے میں اقتصادی تعاون اور رابطوں کے فروغ کی نئی بنیاد فراہم کرے گا۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے پیر کی شام ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اُن کا ملک افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور ’’ہم چاہیں گے کہ افغانستان پرامن ہمسائے کی طرح پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی کے اس سفر میں شامل ہو۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں اقتصادی تعاون تنظیم کا اجلاس لگ بھگ 20 سال بعد ہو رہا ہے۔
ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں اس سطح کے سربراہ اجلاس کے لیے سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور وفاقی دارالحکومت میں جگہ جگہ پولیس کی اضافی چوکیاں قائم کی گئی ہیں جب کہ یکم مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔
اقتصادی تعاون تنظیمکی بیناد 1985 میں رکھی گئی تھی اور ابتدا میں پاکستان، ایران اور ترکی اس کے رکن ممالک تھے۔ ’ای سی او‘ کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان اقتصادی، ثفاقتی اور تکنیکی تعاون کا فروغ تھا۔
بعد ازاں 1992 میں اس تنظیم کو وسعت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے سات دیگر ممالک افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔