انٹرنیٹ پر حکومتو ں اور تنظیموں کی اہم دستاویزات کے راز افشا کرنے والی ایک جانی پہچانی ویب سائیٹ ”وِکی لیکس “نے افغان جنگ کے بارے میں امریکی فوج کی خفیہ معلومات پر مبنی دستاویزات شائع کی ہیں۔
اتوار کے روز انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی 90 ہزار سے زیادہ خفیہ دستاویزات کے بارے میں وکی لیکس کا کہنا ہے کہ وہ جنوری 2004 ء سے دسمبر 2009 ء کے درمیانی عرصے کا احاطہ کرتی ہیں۔
اِن دستاویزات میں امریکہ کی اُن خفیہ فوجی کارروائیوں کی تفصیلات شامل ہیں جو باغیوں اور دہشت گردوں کے اہم اہداف کے خلاف کی گئیں۔ ان میں سے کچھ کارروائیاں غیر ارادی طور پر افغان شہریوں کی ہلاکتوں کا باعث بھی بنیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز نے اِ ن دستاویزات کو منظر عام پر لانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ” غیر ذمہ دارانہ “ فعل نے نہ صرف امریکیوں اور اُن کے والدین کی زندگیوں کوبلکہ قومی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انھوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وِکی لیکس نے اِن معلومات کی اشاعت سے پہلے امریکی حکومت سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور اُسے اس کا پتا ذرائع ابلاغ کے ذریعے اِن کی اشاعت سے چلا۔ جن ذرائع ابلاغ نے یہ خفیہ دستاویزات شائع کی ہیں اُن میں امریکہ اور لندن کے اخبارات نیو یارک ٹائمز اور گارڈین کے علاوہ جرمنی کا ہفت روزہ درشپیگل بھی شامل ہے۔
خفیہ دستاویزات میں نیٹو نے تشویش ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور ایران افغانستان میں طالبان کی مدد کررہے ہیں۔ ان میں دعویٰ کیا گیا ہے پاکستانی خفیہ اداروں کو افغان طالبان کے ساتھ روابط کی باقاعدہ اجازت دی گئی ہے۔
وکی لیکس نے یہ خفیہ دستاویزات جن اخبارات کو فراہم کئے ہیں ان میں دی نیویارک ٹائمز بھی شامل ہے۔ ان دستاویزات کو بنیاد بنا کر اخبار نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی کے طالبان کے ساتھ مبینہ روابط اور طالبان رہنماؤں کے ساتھ تعلقات کا مفصل ذکر موجود ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا سب سے اہم ساتھی ہے جس کے لئے امریکہ پاکستان کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے اور دوسری طرف اس کے حساس ادارےافغان طالبان رہنماؤں جیسے جلال الدین حقانی اور گلبدین حکمتیار کے ساتھ باقاعدہ روابط ہیں۔ ان روابط کے درمیان ایک کڑی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل ہیں جن کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ آج بھی طالبان اور عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ گزشتہ کئی سالوں میں افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف طالبان کےکچھ آپریشنز کی منصوبہ بندی میں بھی شامل رہے ہیں۔
اپنے ایک اخباری بیان میں جنرل حمید گل نے ان رپورٹس کو رد کرتے ہوئے انہیں افسانوی قرار دیا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ اُن کا ملک انتہاپسندوں کے خلاف جنگ اور اُن کے خاتمے کے عزم پر قائم ہے اور وِکی لیکس نے جو دستاویزا ت شائع کی ہیں وہ موجودہ زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتیں۔
قومی سلامتی کے مشیر جیمز جونز کا کہنا ہے کہ خفیہ معلومات میں جس دور کا احاطہ کیا گیا ہے اُس دوران زیادہ وقت سابق صدر جارج ڈبلیو بش اقتدار میں تھے ۔ انھوں نے کہا کہ صدر براک اوباما نے یکم دسمبر 2009 ء میں ایک نئی حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا جس میں افغانستان کے لیے اضافی وسائل اور پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف فوجی کارروائیوں پر زیادہ توجہ دینا شامل ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ کئی برسوں کے دوران پیدا ہونے والی سنگین صورت حال ہی افغان جنگ کی حکمتِ عملی میں تبدیلی کی بنیادی وجہ بنی۔ جیمز جونز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے دہشت گردوں کے خلاف اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کا عمل جاری رکھیں۔