|
اسلام آباد -- ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری اور اُن کے شوہر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا سیکیورٹی روٹ 'توڑنے' کے الزام میں ایمان مزاری اور اُن کے شوہر کے خلاف کارِ سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا تھا۔ پیر کو دونوں کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے اقدام کو کارِ سرکار میں مداخلت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کا بغیر وجہ بتائے راستہ روکنا قانونی طور پر جرم ہے۔ ایمان مزاری نے اس پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جس پر ان کے خلاف کارروائی نہیں بنتی۔
سینئر صحافی حامد میر نے 'ایکس' پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی کی گرفتاری ناقابلِ قبول ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ جوڑا صرف اپنے حق کے لیے لڑ رہا تھا۔ ان کی گرفتاری سے شاید چند طاقت ور لوگوں کی انا کو تسکین پہنچے۔ لیکن یہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پوری ریاست کی بدنامی کا باعث بنے گی۔
ایمان مزاری کی والدہ شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں گرفتار تو کر لیا۔ لیکن ان کے خلاف درج ایف آئی آر اب تک ان کے وکلا کو نہیں دی گئی۔
ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں اسلام آباد پولیس نے برطانوی کرکٹ ٹیم کی موومنٹ کے دوران ٹریفک کو روک رکھا ہے۔
اس دوران ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی پولیس اہلکاروں سے تلخی بھی ہوئی۔
پاکستان میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد ایک طویل عرصے تک غیر ملکی ٹیمیں پاکستان نہیں آئیں اور پاکستان اپنی ہوم سیریز بھی نیوٹرل وینیو دبئی سمیت مختلف مقامات پر کھیلتا رہا ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں کوئی بھی غیر ملکی کرکٹ ٹیم آئے تو اسے سربراہ مملکت کے برابر سیکیورٹی دی جاتی ہے اور ٹیم کی نقل و حرکت کے دوران آنے اور جانے والے تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمان اور ان کے شوہر پولیس کی طرف سے لگائے بیریئرز کو سائیڈ پر کر کے آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس دوران ایک پولیس اہلکار کی طرف سے ایمان مزاری کو دھکا لگنے پر ان کے شوہر ہادی علی پولیس اہلکار کو تھپڑ مارتے اور گالی دیتے نظر آتے ہیں۔
کچھ دیر بعد پولیس اور ایمان مزاری کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور اسی دوران ٹریفک کھل جاتی ہے اور ایمان مزاری اور ان کے شوہر گاڑی میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
اس دوران بعض موٹر سائیکل سوار بیریئرز کراس کر کے آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار انہیں روکتے ہیں۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس نے ایمان مزاری اور ان کے شوہر کے خلاف اتوار کو مقدمہ درج کیا تھا اور پیر کی صبح آبپارہ پولیس نے انہیں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق ایمان مزاری اور ان کے شوہر کو کارِ سرکار میں مداخلت پر آب پارہ پولیس نے گرفتار کیا ہے۔ ایمان مزاری کو ویمن پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا ہے۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ ٹیم کے دورے کے درمیان کارِ سرکار میں مداخلت کرتے ہوئے سیکیورٹی رسک پیدا کرنے پر ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دونوں کو قانون اور ضابطے کے مطابق گرفتار کیا گیا۔
'نوٹس کے بغیر راستہ بند کرنا جرم ہے'
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد کہتے ہیں کہ کسی نوٹس اور جنرل پبلک کو آگاہ کیے بغیر اگر کسی کا راستہ بند کیا جاتا ہے تو قانون کے مطابق یہ جرم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے بغیر نوٹس کے راستہ بند کرنے پر احتجاج کیا ہے تو اس پر ایف آئی آر نہیں بنتی۔
اُن کا کہنا تھا کہ تعزیزات پاکستان کے مطابق غیر قانونی طور پر راستہ روکنا، راستہ تبدیل کرنا قانونی طور پر جرم ہے۔ راستے سے گزرنا ایمان مزاری کا حق تھا اور اگر انہوں نے اس پر احتجاج کیا ہے تو وہ اس کا حق رکھتی ہیں۔ اگر کسی کا راستہ بند کرنا ہے تو اس بارے میں باقاعدہ طور پر آگاہ کرنا ہو گا۔
'اسلام آباد کے شہری اب تنگ آ چکے ہیں'
اسلام آباد کے شہری صرف ایک کرکٹ ٹیم ہی نہیں بلکہ سیاسی صورتِ حال اور عالمی وفود کی آمدورفت کے باعث طویل عرصے سے سڑکوں کی بندش اور رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں آئے دن سڑکیں بند کرنے کے بارے میں ریاست علی آزاد نے کہا کہ یہ اسلام آباد کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے کہ ان کے راستے بند کر دیے جائیں۔
اس صورتِ حال میں ضروری ہے کہ احتجاج کرنے کے لیے کوئی ایک جگہ مختص کر دی جائے اور اگر کوئی بھی شخص احتجاج کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کی اجازت دی جائے۔
اُن کے بقول احتجاج کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہے۔ لیکن کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے یا احتجاج کرنے والے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ عام شہریوں کا راستہ بند کرے۔
گزشتہ ماہ ستمبر میں اسلام آباد میی تحریکِ انصاف کے جلسے کے موقع پر راولپنڈی اور اسلام آباد کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔
اس کے بعد رواں ماہ بھی تحریکِ انصاف کی طرف سے ڈی چوک پہنچنے کے اعلان کے بعد بھی تقریباً تین روز تک اسلام آباد اور راولپنڈی کو 40 سے زائد مقامات پر بند کیا گیا۔
اس کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے موقع پر تین روز کے لیے اسلام آباد میں مقامی تعطیل کا اعلان کردیا گیا اور وی وی آئی پی روٹس سیت دیگر راستے بھی مکمل طور پر بند رکھے گئے تھے۔
اس کانفرنس کے بعد مختلف مذہبی تنظیموں کی طرف سے غزہ احتجاج سمیت دیگر مواقع پر بھی احتجاج کا اعلان کیا گیا تو آبپارہ اور ریڈ زون سمیت دیگر علاقوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا۔
اس احتجاج اور کانفرنس کے دوران کرکٹ ٹیم کے راولپنڈی میں میچ کے دوران بھی راولپنڈی میں فیض آباد، شمس آباد اور مری روڈ کئی مقامات پر مکمل بند کر دی گئی۔ اسلام آباد ایکسپریس وے، زیرو پوائنٹ، آبپارہ اور سیرینا چوک پر بھی ٹیم کی آمدورفت کے دوران طویل وقت کے لیے سڑکیں بند کی جاتی رہی ہیں۔
'گھر سے نکلتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ سڑکیں کھلی ملیں گی یا نہیں'
کاروبار سے وابستہ اسلام آباد کے شہری ناصر علی کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال میں لگتا ہے کہ اب اسلام آباد رہنے کے قابل نہیں رہا۔
اُن کے بقول کہیں بھی جانا ہو تو یہ پتا نہیں ہوتا کہ سڑکیں کھلی ملیں گی یا نہیں، اچانک مارکیٹس بند کرا دی جاتی ہیں۔ پولیس راستے بند کر کے احتجاج کرنے والوں کو تو روکتی ہے۔ لیکن جن لوگوں کو ملازمت یا اسکول کالجز جانا ہے انہیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے۔
اُن کے بقول اکثر ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے میں جہاں صرف 10 منٹ لگتے ہیں ایسی صورت حال میں چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
ناصر علی کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ فیول ضائع ہوتا ہے۔ لیکن شاید کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ ایسے میں لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں اور ان کا غصہ بڑھ رہا ہے۔
'پولیس کسی خاص وجہ پر راستہ بند کر سکتی ہے'
اسلام آباد کے سابق ایس ایس پی جمیل ہاشمی کہتے ہیں کہ کسی بھی نجی شخص یا فرد کی جانب سے کسی کا راستہ روکنا قانونی طور پر جرم ہے۔ لیکن پولیس کو اس حوالے سے استثناٰ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر پولیس کسی وجہ سے راستہ بند کرتی ہے تو یہ ایک طرح سے ٹریفک قوانین پر عمل کرانے جیسا ہی ہے۔
اُن کے بقول پولیس اور ایمبولینس سگنل توڑ کر بھی جا سکتے ہیں کیوں کہ ان کی نیت قانون توڑنا نہیں بلکہ قانون پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی میں اگر ایسا عمل کیا جاتا ہے تو اس پر قانون کا نفاذ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معروضی حالات ہیں جن میں سڑک کو بند کرنا ضروری تھا۔ ایمان مزاری کا یہ اقدام غیر ملکیوں کی سیکیورٹی کو خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف تھا۔
فورم