امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے افغانستان میں جمعے کے روز شروع ہونے والے لویہ جرگے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جرگہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے قومی حمایت کو مستحکم کرے گا اور باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گا جن کی رہائی بین الافغان مذاکرات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بھی ٹیلی فون پر بات کی۔ دونوں رہنماؤں نے افغان امن کے سلسلے میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون کی اہمیت سمیت خطے کے استحکام کے موضوعات پر بات چیت کی۔
لویہ جرگہ اور افغان صدر اشرف غنی کا خطاب
افغانستان میں امن عمل اور بقیہ 400 طالبان قیدیوں سے متعلق افغان عمائدین کی رائے حاصل کرنے کے لیے جمعے کو دارالحکومت کابل میں مشاورتی لویہ جرگہ شروع ہوا۔
افغان حکام کے مطابق تین روز تک جاری رہنے والا لویہ جرگہ اُن 400 طالبان قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گا جن کی رہائی میں تاخیر کی وجہ سے بین الافغان مذکرات التوا کا شکار ہو رہے ہیں۔
جمعے کو لویہ جرگے میں خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ آئین کی رو سے صدر کے پاس ان 400 قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے جو سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
صدر غنی کے بقول اگر ان قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے تو پھر تین روز میں براہِ راست بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔ تاہم قوم سے مشاورت کے بغیر اُنہیں رہا کرنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے مشاورتی لویہ جرگہ کے مندوبین پر زور دیا کہ وہ 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کرنے کی کوئی راہ نکالیں کیوں کہ ان کے پاس ان قیدیوں کو رہا کرنے کا اختیار محدود ہے۔
افغان صدر نے کہا کہ وہ ان قیدیوں کی سزا کو ختم نہیں کر سکتے جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ وہ صرف ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
افغانستان کی قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ اور لویہ جرگے کے چیئرمیں عبداللہ عبداللہ نے اس موقع پر کہا کہ جرگے کے اراکین کا فیصلہ افغان عوام اور ملک کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے ذریعے کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔ امن کے لیے تمام افغان یک زبان ہیں۔
لویہ جرگہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب رواں برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ بین الافغان مذاکرات سے پہلے افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جب کہ طالبان بھی اپنی قید میں موجود افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کریں گے۔
طالبان نے اپنی قید میں موجود تمام قیدی رہا کر دیے ہیں جب کہ افغان حکومت بھی طالبان کے 4600 قیدی رہا کر چکی ہے لیکن 400 قیدیوں کے معاملے پر تعطل پیدا ہو گیا ہے۔
کابل میں لویہ جرگہ شروع ہونے سے پہلے امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 40 سال کی جنگ، خونریزی اور تباہی کے بعد فریقین افغانستان میں تصفیے لیے ایک سیاسی عمل کا آغاز کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی ایک غیر مقبول عمل ہے لیکن اس کے نتائج افغانستان اور اس کے دوست ملکوں کے لیے اہم ثابت ہوں گے۔
جمعرات کو اپنے ایک بیان میں مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ تشدد میں کمی اور براہِ راست مذاکرات کے نتیجے میں امن معاہدہ اور افغانستان میں طویل جنگ کا خاتمہ ہو گا۔
افغان مفاہمت کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا خیرمقدم
دوسری جانب امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مٖفاہمت زلمے خلیل زاد نے جمعے کو متعدد ٹوئٹس میں افغان امن عمل سے متعلق مشاورتی لویہ جرگہ کے انعقاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرگہ بین الافغان امن مذکرات کی ر اہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک تاریخی موقع فراہم کرتا ہے۔
اُن کے بقول لویہ جرگے کے نتیجے میں تشدد میں کمی ہو سکتی ہے اور افغان فوری طور پر مذاکرات کی میز پر آ سکتے ہیں۔ افغان عوام نے اس لمحے کا طویل انتظار کیا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ تمام فریقین کو امن کے اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگرو ہ ایسا کرتے ہیں تو امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی ایک بیان میں اُمید ظاہر کی ہے کہ لویہ جرگے کے انعقاد سے امن مذاکرات اگلے مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔
لویہ جرگے میں شریک جرگے کے معاون انجینئر کمال صافی کا کہنا ہے کہ اس جرگے کا بنیادی مقصد 400 طالبان قیدیوں سے متعلق فیصلہ کرنا ہے جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔
'جرگے میں متفقہ لائحہ عمل کی کوشش کی جائے گی'
جمعے کو کابل سے فون پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کمال صآفی نے بتایا کہ تین روز تک جاری رہنے والے لویہ جرگے میں مختلف علاقوں سے تین ہزار سے زائد مندوب شرکت کر رہے ہیں جن میں 30 فی صد خواتین بھی شامل ہیں۔
اُن کے بقول جرگے میں امن عمل کی راہ میں رکاوٹوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا جائے گا اور بین الافغان مذاکرات سے پہلے ایک متفقہ لائحہ عمل کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
کمال صافی کے مطابق تین روزہ جرگے کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جائے گا۔
دوسری طرف لویہ جرگہ شروع ہونے کے بعد تاحال طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن قبل ازیں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ افغان حکومت کے زیرِ انتظام ہونے والے لویہ جرگے کو افغان عوام کا نمائندہ قرار نہیں دیتے ۔
طالبان کے ترجمان کے بقول ملک میں اسلامی حکومت کے قیام اور افغان عوام کی خواہشات کے خلاف کسی بھی فیصلے کو افغان عوام قبول نہیں کریں گے۔
افغان حکومت طالبان کے اس مؤقف کو مسترد کرتی ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آئین کے تحت عوام کی نمائندہ حکومت ہے۔