پاکستان کے ایک سینئر سفارت کار نے کہا ہے کہ امریکہ، افغان طالبان کے ساتھ گزشتہ برس فروری میں ہونے والے معاہدے پر نظرِ ثانی کو جلد حتمی شکل دے تا کہ افغان حکام اور طالبان کے مابین جاری بین الافغان امن مذاکرات میں پیش رفت ہو سکے۔
پاکستان کے افغانستان میں تعینات سفارت کار منصور احمد خان نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو تجویز دی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے متعلق معاہدے میں طے کردہ وقت میں طالبان سے مشاورت کیے بغیر ردو بدل نہ کرے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک سال قبل طالبان سے امن معاہدہ کیا تھا۔ البتہ گزشتہ برس نومبر میں صدارتی انتخابات میں جوبائیڈن کی کامیابی کے بعد رواں برس جنوری میں امریکہ میں نئی انتظامیہ نے حکومت سنبھال لی ہے جس کے بعد صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ گزشتہ برس طالبان سے ہونے والے معاہدے پر نظر ثانی کر رہی ہے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک 'اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ' میں خطاب کے دوران پاکستانی سفارت کار منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ انہیں اندازہ ہے کہ امریکہ میں ادارے نظرِ ثانی پر وقت لگاتے ہیں۔ البتہ ان کے بقول انہیں امید ہے کہ اس معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے معاہدے پر نظرِ ثانی میں جلدی کی جائے گی۔
منصور احمد خان نے خطاب کے دوران زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں فریقین کے لیے مشترکہ فرائض ہیں۔
ان کے بقول اس نظرِ ثانی کے جو بھی نتائج سامنے آتے ہیں۔ ان کا اعلان طالبان سے مشاورت کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔
منصور احمد خان نے امریکہ کی طرف سے معاہدے پر نظرِ ثانی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے غیر مشروط انخلا کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں۔
انہوں نے پاکستان پر طالبان کی حمایت یا انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے جیسے الزامات کو بھی رد کیا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان طے کردہ معاہدے کے مطابق امریکہ رواں سال یکم مئی تک افغانستان میں تعینات باقی ماندہ 2500 فوجی اہلکاروں کے علاوہ لگ بھگ 10 ہزار نیٹو افواج کا انخلا ممکن بنائے گا۔ تا کہ امریکی تاریخ میں طویل ترین جنگ کا خاتمہ کیا ہو سکے۔
دوسری طرف معاہدے کے مطابق بدلے میں طالبان بین الاقوامی افواج پر حملے بند کر دیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کا معاملہ بھی معاہدے کا حصہ تھا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان میں گزشتہ برس ستمبر سے براہِ راست مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔
افغان حکام اور طالبان کے درمیان دوحہ میں جاری مذاکرات جنہیں ‘افغان امن عمل’ کا نام دیا گیا ہے، ان کا مقصد فریقین کے درمیان دو دہائیوں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔ تاہم ان مذاکرات میں اب تک بہت خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
صدر بائیڈن پر دباؤ ہے کہ طالبان نے معاہدے کے مطابق وعدوں پر عمل نہیں کیا۔
طالبان پر الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ اس نے معاہدے کے مطابق 'القاعدہ' اور دیگر عسکریت پسند گروہوں سے تعلقات ختم نہیں کیے۔ جب کہ افغانستان میں تشدد میں بھی کمی نہیں آئی۔
تاہم طالبان ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔ وہ بھی امریکہ پر زود دیے آئے ہیں کہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔
طالبان نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر دو طرفہ معاہدے میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کے افغانستان میں جاری جنگ میں خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کو طالبان کو افغان امن معاہدے کے لیے رضا مند کرنے اور طالبان کو افغان حکام سے امن سے متعلق مذاکرات شروع کرانے کا سہرا دیا جاتا ہے۔