افغانستان کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک، جو طالبان کی جانب سے موسیقی پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ایک سال سے زیادہ عرصے سے خاموش تھا اور اپنی تیاریوں میں مشغول تھا، اب اس نے اپنے نئے گھر لزبن، پرتگال میں اپنا پہلا کنسرٹ کیاہے۔
طالبان نے گزشتہ برس افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جہاں اور بہت سی پابندیاں عائد کیں وہیں موسیقی سننے یا بجانے پر بھی سخت پابندی کا نفاذ کر دیا۔ بہت سے ریڈیو سٹیشن بند ہو گئے اور ٹی وی چینلز نے موسیقی کے پروگرام ختم کر دیے۔
افغانستان میں قائم، انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کو بھی اس پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایسے میں پرتگال نے ادارے کے ارکان کو اپنے ملک میں آنے کی اجازت دی۔ اور انسٹی ٹیوٹ آف میوزک کے 270 سے زائد طلبا، اساتذہ اور عملے کے ارکان کو افغانستان سے نکال کر لزبن لایا گیا، تاکہ وہ ایک آزاد اور کھلے معاشرے میں اپنے فن کا اظہار کر سکیں۔
جلاوطن اسکول کے ارکان جو اپنے وطن میں موسیقی نہیں بجا سکتے تھے، افغان موسیقی کو زندہ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں اور انہوں نے افغانستان کے بہترین گیت اور قومی ترانہ پیش کیا۔
جب آرکسٹرا نے افغانستان کے قومی گیت پیش کئے تو کچھ افغان حاضرین کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنا قومی ترانہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ حاضرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ سب دوست ہیں اور وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور رو پڑے۔
حاضرین میں موجود افغان خوشی اور فخر محسوس کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بڑی خوشی ہے کہ ہمارے افغان ساتھیوں کو ایک یورپی ملک میں یہ کامیابی مل رہی ہے۔
لزبن میں موسیقی کی پرفارمنس سے قبل وائس آف امریکہ کی دستاویزی فلم ’’سمفنی آف کریج‘‘ کی نمائش کی گئی۔ اس موقع پر، وائس آف امریکہ کی قائم مقام ڈائریکٹر یولانڈا لوپیز نے کہا کہ افغانستان میں آزادیوں کو بڑے پیمانے پر سلب کیا جارہا ہے اور موسیقی پر پابندی بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’کابل میں موسیقی کی تخلیق، اسے پیش کرنے اور اس سے لطف اٹھانے کی آزادی کا چھن جانا افغانستان میں ، تقریر کی آزادی پر پابندی کی بھی عکاسی کرتا ہے جس کے لئے ہم وائس آف امریکہ میں ہر روز جدوجہد کرتے رہے ہیں، اور اب افغان عوام معلومات، خبروں اور موسیقی کے لیے ترس رہے ہیں۔‘‘
پرتگال کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ افغانستان کی بہترین ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے، اور ان کے ملک کو اس کی میزبانی پر بہت فخر ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ ایک دن آئے گا جب افغانستان میں دوبارہ موسیقی پیش کرنا ممکن ہوسکے گا، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اس فن کو پرتگال میں زندہ رکھا جائے اور ہم اس کاوش میں شریک ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔‘‘
اسکول کے اساتذہ اور طلبا کا کہنا ہے کہ وہ افغانوں کی نمائندگی کرنے کے عہد پر قائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’وہ خوش قسمت ہیں کہ وہ افغانستان کےعوام کی آواز بن رہے ہیں۔
افغان انسٹی ٹیوٹ آف میوزک، بیرونی ممالک میں کنسرٹس کے ذریعے افغان موسیقی کو متعارف کرانے اور افغانستان کے لوگوں کی امید کو زندہ رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔