افغانستان میں پیر کو نئے سال کے جشن کا آغاز ہو رہا ہے اور اس موقع پر توقع کی جا رہی ہے کہ صدر حامد کرزئی کابل میں ملک کے اُن علاقوں کے ناموں کا اعلان کریں گے جہاں سلامتی کی ذمہ داریاں بین الاقوامی افواج سے افغان فورسز کو منتقل کرنے کے عمل کی ابتداء کی جائے گی۔
منصوبے کے تحت افغان فورسز کو جولائی سے اِن ذمہ داریوں کی منتقلی شروع کی جائے گی اور افغانستان سے لگ بھگ ایک لاکھ پچاس ہزارامریکی و نیٹو افواج کے مکمل انخلاء کا دارومدار اس عمل کی کامیابی پر ہوگا۔
اطلاعات کے مطابق صدر کرزئی چار صوبوں اور تین بڑے شہروں کے ناموں کا اعلان کریں گے جن کا انتظام افغان حکومت کی فورسزکے ہاتھوں میں دیا جائے گا ۔ان میں زیادہ تر وہ علاقے شامل ہونے کی توقع ہے جو نسبتاََ محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔
لیکن افغان فوج اور پولیس ان ذمہ داریوں کی سنبھالنے کے لیے کس حد تک تیار اور اہل ہے اس بارے میں شکوک و شبہات برقرار ہیں۔ اس کی وجہ طالبان جنگجوؤں کی کارروائیوں کی شدت میں کمی نا آنا ، بدعنوانی اور فوجی رہنماؤں کی طرف سے وسائل کی کمی کی شکایات ہیں۔
افغانستان میں تعینات نیٹو افواج میں شامل ملکوں نے گذشتہ سال ایک اجلاس میں امن وامان کی ذمہ داریوں کی صدر کرزئی کی حکومت کو منتقل اور مغربی فوجوں کے کردار کو مقامی فورسز کی معاونت تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
نیٹو کی زیر قیادت بین الاقوامی فورس ، ایساف، افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے منصوبوں پربھی کام کر رہی ہے اور اس توقع کا اظہار کیا جارہا ہے کہ 2014ء تک سلامتی کی ذمہ داریوں کی مکمل قیادت افغان نیشنل آرمی کو منتقل کردی جائے گی جس کی موجودہ تعداد ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد ہے۔
لیکن افغان دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ تعداد کے لحاظ سے تو افغان فوج اورپولیس نے ترقی کی ہے البتہ اُنھیں مناسب انداز میں لیس کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
امریکی صدر براک اوباما نے اعلان کر رکھا ہے کہ امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء بھی جولائی میں شروع کیا جائے گا۔
افغانستان میں جاری امریکہ کی جنگی کارروائیاں امریکی عوام میں تیزی سے غیر مقبول ہوتی جارہی ہیں اور اس ماہ سامنے آنے والے ایک سروے کے نتائج کے مطابق دو تہائی امریکی شہری سمجھتے ہیں کہ اس لڑائی کو مزید جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
نو سال قبل طالبان کے خلاف شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک پندرہ سو سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ امریکہ کے جنگی اخراجات سالانہ ایک سو ارب ڈالرز سے بھی زائد ہیں۔
تاہم گذشتہ ہفتے امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کے اراکین کی اکثریت نے اُس قرارداد کو مسترد کردیا جس میں اس سال دسمبر تک تمام امریکی فوجوں کو افغانستان سے واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔