افغانستان میں حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے مشرقی صوبے میں 'نیٹو' افواج کے ایک فضائی حملے میں سات عام افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا کے ڈپٹی گورنر عبد الولی ساہی نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ صوبے کے علاقےادکے سے تعلق رکھنے والے دیہاتی سات افراد کی لاشیں صوبائی دارالحکومت گردیز لائے ہیں جو ان کے بقول نیٹو کے ایک فضائی حملے میں مارے گئے ہیں۔
ڈپٹی گورنر کے مطابق دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ مرنے والے تمام لوگ عام افراد ہیں جن میں ایک نو سال کا بچہ بھی شامل ہیں۔
عبدالولی ساہی نے صحافیوں کو بتایا کہ واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ دیہاتی اتوار کو ایک پہاڑی پر آگ جلا رہے تھے جب ان پر نیٹو کے طیاروں نے بمباری کی۔
ڈپٹی گورنر کے مطابق دیہاتیوں کے ہاتھوں میں بیلچے اور دیگر اوزار تھے جو نیٹو فوجیوں کو ہتھیار لگے اور انہوں نے دیہاتیوں کو طالبان جنگجو سمجھ کر انہیں بمباری کا نشانہ بنایا۔
لیکن افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے افغان حکام کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے فضائی حملے میں آٹھ شدت پسند مارے گئے ہیں۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی فوجی مشن 'ایساف' کے ایک ترجمان نے علاقے میں فوجی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ علاقے میں اتحادی افواج پر فائرنگ کی گئی تھی جس کے جواب میں فضائی حملہ کیا گیا۔ ترجمان کے مطابق فضائی کارروائی میں آٹھ حملہ آور مارے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ پکتیا میں طالبان کے ساتھ ساتھ جنگجو گروپ 'حقانی نیٹ ورک' بھی سرگرم ہے اور صوبے میں اتحادی اور افغان سکیورٹی فورسز پر شدت پسندوں کے حملے معمول کی بات ہیں۔
گزشتہ 13 برسوں سے جاری افغان جنگ میں غیر ملکی افواج کے فضائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت افغان حکومت اور نیٹو حکام کے درمیان وجۂ نزاع بنی رہی ہے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی کے اقتدار کے آخری برسوں میں نیٹو کی فضائی کارروائیوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات پر نیٹو حکام اور افغان صدر کے درمیان تعلقات انتہائی تلخ ہوگئے تھے۔
سابق افغان صدر نے امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے جن وجوہات کی بنیاد پر انکار کیا تھا ان میں نیٹو حملوں میں عام افغان شہریوں کی ہلاکت کا معاملہ سرِ فہرست تھا۔
کرزئی کے جانشین اشرف غنی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز اس معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔