|
کراچی — ملک بھر کے بالائی علاقوں اور شمالی علاقہ جات میں جہاں موسم سرد ہونا شروع ہوگیا ہے جب کہ پنجاب کے شہر لاہور میں اس وقت فضائی آلودگی کا بھی سامنا ہے، وہیں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اکتوبر کا مہینہ شدید گرم رہا۔ کراچی سمیت سندھ کے بہت سے اضلاح میں درجہ حرارت 38 سے 41 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچے۔
محکمۂ موسمیات کے چیف میٹرو لوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق کراچی میں اکتوبر کے مہینے میں طویل وقت تک موسم گرم رہا۔ اب بھی نومبر کراچی شہر کے لیے گرم ہی ثابت ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ 1951 میں اکتوبر کے مہینے میں کراچی کا درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا تھا۔
ان کے بقول کراچی میں ستمبر اور اکتوبر عمومی طور پر گرم مہینے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ درست ہے کہ اس برس اکتوبر میں 12 سے 15 دن میں درجۂ حرارت گزشتہ برسوں کی نسبت گرم ترین رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی اکتوبر میں گرم دن آتے تھے۔ لیکن وہ اتنے نہیں ہوتے تھے جتنے اس مہینے میں رہے جس کی وجہ سمندری ہواؤں کا بند ہونا اور پوسٹ مون سون سیزن میں سمندر میں ڈپریشن کا بننا بھی تھا۔ ایسے میں سائیکلون بننے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس بار سمندر میں ایسے دو ڈپریشن بنے جو بحیرۂ عرب میں بنا اور پھر عمان کی جانب مڑ گیا جب کہ دوسرا یمن کی جانب چلا گیا۔ اس کی وجہ سے بھی سمندری ہوائیں متاثر ہوئیں۔
ان کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ ملک بھر میں اس برس موسم سرما کیسا رہے گا؟ تو اس پر سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ اس برس غیر معمولی سردی کا امکان نہیں ہے۔
محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی ہے کہ ملک بھر میں شروع ہونے والا موسم سرما گزشتہ سال کی طرح خشک رہے گا اور بارشیں کم ہوں گی۔ کچھ علاقوں میں جیسے گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں معمول کی سردی پڑ سکتی ہے۔ لیکن شہروں خصوصاً میدانی علاقوں میں کوئی خاص سردی پڑنے کا امکان نہیں ہے اور موسم سرد اور خشک ہی رہے گا۔
سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر برف باری دسمبر اور جنوری میں ہو جاتی ہے۔ لیکن گزشتہ برس یہ جنوری کے اختتام اور فروری میں ہوئی تھی جو یقیناً موسمیاتی تبدیلی کی اہم وجہ ہے۔
’گرمی سے بچاؤ کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا‘
کراچی یونیورسٹی میں انوائرمینٹل اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقاراحمد کے مطابق کراچی شہر میں اربن پلاننگ کا فقدان بھی اب شہر کو گرم ترین کر رہا ہے۔ بے ہنگم انداز میں شہر کا پھیلنا جس میں کھلی جگہوں کی کمی اور تعمیرات میں انسولیشن کا خیال نہ کرنا بھی اب اس شہر میں رہنے والوں کے لیے متاثر کن ہوتا جارہا ہے۔
ڈاکٹر وقار احمد کا مزید کہنا تھا کہ اس برس اکتوبر گرم ترین مہینہ رہا۔ 2015 کی ہیٹ ویو کے بعد سے مسلسل شہر کے درجہ حرارت بڑھتے جارہے ہیں جس کو کم کرنے یا سہنے کے لیے شہر میں درختوں کو زیادہ سے زیادہ لگانے کی ضرورت ہے جس میں مقامی درخت لگائے جائیں۔
ان کے بقول آج کل لوگ میاواکی شجرکاری کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے شہر کے لیے موافق نہیں۔ اس لیے ایسے درخت جو سایہ دار اور مقامی ہوں، انھیں لگانے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ ورٹیکل گارڈنز بنانے یا اونچی عمارتوں پر گرین روف بنائے جائیں۔ شہر میں ایسے پارک جن پر قبضے ہوگئے ہیں۔ انھیں ختم کر کے دوبارہ سے بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ گھروں میں تعمیرات میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ گھروں کی انسولیشن بھی ایسی ہو کہ باہر کی گرمی کا اثر اس میں رہنے والوں پر کم پڑے۔
پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہوتا ہے۔
ماہر ماحولیات یاسر حسین کے مطابق دنیا بھر میں تبدیل ہوتے موسموں کے پیٹرن کو درست کرنا ناممکن ہے۔ لیکن اس سے متاثرہ ممالک کو اب نئے ماڈلز کو اپنانے کی ضرورت ہے جس میں کم پانی کو خرچ کر کے زراعت پر تجربوں کے ساتھ ساتھ ایسی فصلوں کو اگانا بھی ہے جو ان بدلتے موسموں کو برداشت کرسکیں۔
یاسر حسین کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس برس بھی موسم سرما میں بارشیں یا برفباری کم ہونے کا امکان ہے تو اس سے پہلا نقصان جہاں زراعت کو ہوگا وہیں موسم گرما میں پانی کی قلت بھی ہوسکتی ہے۔
یاسر حسین کا مزید کہنا تھا کہ موسم سرما میں اگر برف باری نہ ہوئی تو گلیشئرز پر پہلے سے جمی برف پگھل کر ہی پانی کی ضرورت کو پورا کرے گی جس سے مزید گلیشئیز کم ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔
گزشتہ برس موسم سرما میں تاخیر سے ہونے والی بارشیں اور برف باری سے زراعت کو نقصان پہنچا تھا۔
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ویسے تو دسمبر میں برف پڑتی ہے لیکن تاخیر سے برفباری ہونے سے جہاں سیاحتی شعبہ متاثر ہوا تھا وہیں پڑنے والی برف کو گلیشئیرز پر جمنے کا وقت نہیں مل سکا تھا جس کے بعد موسم تبدیل ہوتے ہی تاخیر سے پڑنے والی برف جم نہ سکنے سے پانی کے بہاؤ میں تبدیل ہوکر زراعت کے لئے ایک چیلنج ثابت ہوئی تھی۔