ایک ایسے وقت جب امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں ملک میں تشدد کم کرنے کے عزم کے باوجود گزشتہ کئی ماہ کے دوران تشدد میں اضافہ ہوا ہے، افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان شراکت اقتدار کے ایک معاہدے کے بعد عبداللہ عبداللہ کو قومی افہام و تفہیم کی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے طالبان کے ساتھ امن عمل اور مذاکرات کی قیادت کا کام سونپ دیا گیا ہے۔
بعض ماہرین اس بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں کہ کیا ایسی صورت میں جب طالبان اور شمالی اتحاد کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں طالبان اور عبداللہ عبداللہ میں باہمی اعتماد کی فضا قائم ہو سکے گی؟ اور کیا امن عمل آگے بڑھانے اور طالبان کے ساتھ مستقبل کے مذاکرات کی قیادت عبداللہ عبداللہ کے سپرد کرنا درست فیصلہ ہے؟
ممتاز تجزیہ کار اور سیکیورٹی امور کے ماہر، بریگیڈیئر عمران ملک نے کہا ہے کہ شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان اعتماد کا جو فقدان ہے وہ اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معاملہ بہت الجھا ہوا ہے، کیونکہ اگر طالبان کسی مرحلے پر اقتدار میں شامل ہونے کے لئے تیار بھی ہوئے تو صرف اسی صورت میں ہونگے جب انہیں حکومت میں غلبہ حاصل ہو اور یہ صورت شمالی اتحاد کے لئے تو بالکل ہی قابل قبول نہیں ہوگی، کیونکہ وہ طالبان پر اور طالبان ان پر اعتماد نہیں کرتے اور اشرف غنی کے لئے بھی یہ صورت حال قابل قبول نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا تمام فریقین پر اثر ہے اور جیسا کہ خیال ہے کہ اپنے صدارتی انتخاب سے پہلے امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، تو بہترین طریقہ یہ ہی ہے کہ نکلنے سے پہلے وہ ان فریقوں کے درمیان ایک قابل عمل معاہدہ کرا دے۔ ورنہ، بصورت دیگر، ایسا کیے بغیر اگر امریکہ ایک بار پھر وہاں سے نکل آیا تو پھر کچھ نہیں ہو سکے گا۔ ایسے میں، علاقائی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے میدان میں آجائیں گی اور افغان امن کا خواب کہیں بہت دور چلا جائے گا۔
تاہم، ممتاز افغان صحافی اور کالم نگار ڈاکٹر حسین یاسا کا خیال ہے کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے، کیونکہ اس وقت یہ معاملہ یا جو مذاکرات ہونگے وہ ان دو فریقوں کے درمیان ہونگے، جن میں سے ایک فریق طالبان ہیں اور دوسرے فریق میں افغانستان کے بقیہ تمام لوگ شامل ہیں، جن کو مشکلات درپیش ہیں، جن کی نمائندگی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات ان ہی فریقین کے درمیان ہوتے ہیں جن کے درمیان کشیدگی ہوتی ہے اور اعتماد کا فقدان ہوتا ہے؛ اور اس اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ہی مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ طالبان کو بھی اس انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئیے اور معاملات کو نیک نیتی سے آگے بڑھانا چاہئے۔
خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے میں افغانستان میں تشدد میں کمی اور حکومت کی جانب سے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی جبکہ طالبان کے پاس قید افغان حکومت کے لوگوں کی رہائی طے کی گئی تھی۔
لیکن، اتنا وقت گزرنے کے باوجود نہ تشدد میں کمی آئی نہ دونوں جانب سے مطلوبہ تعداد میں قیدی رہا ہوسکے۔ کوئی بارہ سو طالبان قیدی اور افغان حکومت کے 245 قیدی رہا ہوئے ہیں۔ افغان صدر نے عید پر دوہزار قیدی رہا کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس دوران عید کے موقع پر دونوں جانب سے عارضی جنگ بندی رہی۔