امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پاکستانی پارلیمنٹ کی راہداریوں میں سب سے زیادہ زیربحث معاملہ رہا، حکومتی ارکان سخت جواب دینے کا عندیہ دیتے رہے اور اپوزیشن ارکان اس حوالے سے حکومتی ارکان کو دیکھ کر مسکراتے رہے کہ جواب کب آئے گا
ارکان نے اس حوالے سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا اور بیشتر ارکان نے اس پالیسی کو پاکستان کے ساتھ ناانصافی قرار دیا،،پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ بھارت کیطرح امریکہ بھی اپنی ناکامیوں کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں کررہا ہے۔ دہائیوں سے نافذ کی گئی ناقص اور ناکام افغان پالیسی حقیقت میں امریکی مایوسی کا سبب ہے،
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ہر خواہش کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اور امریکہ کے اپنے اپنے قومی مفاد ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کی ثمن جعفری نے کہا آج اتنی جانوں کی قربانی کے بعد ہمیں ڈو مور سننے کو مل رہا ہے اسکا مطلب یہ ہے یا انکے کچھ اور مقاصد ہیں یا ہماری خارجہ پالیسی اتنی کلیر ہی نہیں
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ کہ نئی امریکی پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نئی امریکی پالیسی پرانی شراب پرانی بوتل میں ہے، امریکہ بھارت کو ملوث کرکے افغانستان کو نئی پراکسی وار میں دھکیل رہا ہے
عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید نے کہا کہ ہم خود مختار ملک، ہیں امریکا ہم پر اپنی پالیسی مسلط نہ کرے، ہم اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔
بیشتر ارکان نے امریکی پالیسی پر تو تنقید کی لیکن اپنے دفترخارجہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور امریکی سخت پیغام کو اپنی کمزور خارجہ پالیسی کے مرہون منت قرار دیا،،،