افغانستان کے صدر اشرف غنی نے شمالی شہر قندوز میں اسپتال پر فضائی بمباری کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے دیا ہے جو حقائق کی چھان بین کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔
گزشتہ ہفتے طالبان سے برسرپیکار افغان فورسز کی مدد کے لیے امریکی فورسز نے قندوز میں فضائی کارروائی کی تھی جس کی زد میں یہاں واقع ایک اسپتال بھی آ گیا تھا۔
یہ اسپتال بین الاقوامی غیر سرکاری طبی امدادی تنظیم "ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز" کے زیر انتظام تھا اور بمباری سے یہاں عملے اور مریضوں سمیت 22 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ہفتہ کو صدر غنی کے نائب ترجمان ظفر ہاشمی نے ایک بیان میں بتایا کہ پانچ رکنی کمیشن نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ امراللہ صالح کی سربراہی میں کام کرے گا اور یہ لوگ قندوز جا کر ان حالات و واقعات کا جائزہ لیں گے جن میں اسپتال بمباری کا نشانہ بنا۔
طالبان نے گزشتہ ہفتے اس اہم شہر پر قبضہ کیا تھا لیکن یہ تسلط زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکا اور افغان فورسز نے بین الاقوامی اتحادی افواج کی مدد سے یہاں سے اکثر عسکریت پسندوں کو نکال باہر کیا۔ لیکن اب بھی طالبان کے بعض جنجگو شہر میں چھپے ہوئے ہیں جن سے سکیورٹی فورسز کی جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔
اسپتال پر بمباری کے واقعے کے بعد ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس شہر سے اپنی سرگرمیوں کو سمیٹنے کا اعلان کیا تھا اور اس کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی حالت میں طبی سہولت کو نشانہ نہ بنائے جانے کے عالمی قوانین کی پاسداری نہ کرنے والوں کا تعین کیا جائے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل جان کیمبل یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ فضائی کارروائی افغان فورسز کی درخواست پر کی گئی تھی اور اسپتال کو دانستہ طور پر نشانہ نہیں بنایا گیا۔
صدر براک اوباما بھی اس واقعے میں ہونے والے جانی نقصان پر معذرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مکمل تحقیقات کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
جمعہ کو افغان صدر اشرف غنی نے ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔ سرکاری بیان کے مطابق صدر نے انھیں بتایا کہ افغان فورسز کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں کام کرنے والی بین امدادی تنظیموں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔