رسائی کے لنکس

صدر غنی کا دورہ بھارت، دہشت گردی کے خلاف تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق


بھارت اور افغانستان نے انسداد دہشت گردی، سلامتی اور دفاع کے شعبوں میں تعاون سمیت دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی بدھ کو بھارت کے دو روزہ سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچے جہاں انھوں نے میزبان وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے مطابق بھارتی وزیراعظم اور افغان صدر نے علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی اور تشدد کے استعمال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال خطے کے امن و استحکام اور ترقی کے لیے واحد بڑا خطرہ ہے۔

دونوں رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتقاق کیا کہ بھارت اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی قیادت میں تشکیل دی گئی ’اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کونسل‘ کا اجلاس جلد ہو گا، جس میں مختلف شعبوں میں تعاون سے متعلق چار ورکنگ گروپوں کی تجاویز اور فیصلوں کا جائزہ لیا جائے گا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کی تمام اشکال کی بلا امتیاز بیخ کنی پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغانستان اور بھارت کو نشانہ بنانے والی دہشت گردی سمیت تمام دہشت گردوں کی حمایت، معاونت اور محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کیا جائے۔

بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی سے نمٹنے، سلامتی کو مستحکم کرنے اور دفاعی تعاون کے عزم کا اعادہ بھی کیا جو کہ بھارت اور افغانستان کے مابین اسٹریٹیجک معاہدے کی طرف پیش رفت کا حصہ ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے مختلف شعبوں میں افغانستان کی ضروریات کو پورا کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

اس میں تعلیم، صحت، زراعت، فنی ترقی، توانائی اور خواتین کو بااختیار بنانے کے شعبوں میں استعداد کار بڑھانا، جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے، بھارت سے عالمی معیار کی ارزاں ادویہ کی افغانستان کو فراہمی، باہمی اتفاق سے شمسی توانائی کے شعبے میں تعاون شامل ہیں۔

مزید برآں بھارت آئندہ چند سالوں میں افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر بھی مہیا کرے گا۔

2014ء میں منصب صدارت سنبھالنے کے بعد شروع میں اشرف غنی کا زیادہ تر جھکاؤ پاکستان کی طرف رہا ہے لیکن حالیہ مہینوں میں بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات میں گرمجوشی دیکھی گئی ہے۔

بھارت کے وزیراعظم نرنیدر مودی بھی دسمبر 2015 اور رواں سال جون میں افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں۔

بھارت نے افغانستان میں کئی بڑے منصوبوں میں بھی معاونت فراہم کی ہے جن میں سے بعض تکمیل کو بھی پہنچ چکے ہیں۔ ان میں افغان پارلیمان کی نئی عمارت اور سلمیٰ ڈیم بھی شامل ہیں جو کہ بھارتی مالی تعاون سے تیار کیے گئے۔

اپنے دورے میں افغان صدر اہم بھارتی کاروباری شخصیات سے بھی ملاقات کریں گے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دورہ بھارت اور دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے بارے میں پاکستان کی حکومت کی طرف سے تو کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

البتہ پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم سینیٹر اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دو مختار ملکوں کے درمیان تعاون یا سمجھوتوں پر تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن اُن کے بقول اگر اس کے اثرات پاکستان پر ہوں تو وہ ایک الگ معاملہ ہو گا۔

’’افغانستان کے صدر کے دورہ بھارت پر تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور دہشت گردی کے خلاف تعاون کو بھی ہم سراہتے ہیں، ایسی کوششوں میں تو پاکستان ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔۔۔ لیکن دبے لفظوں میں نریندر مودی صاحب جو پاکستان کی طرف اشارہ کرتے ہیں یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔۔۔ہمارے مفاد میں ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھیں اور بھارت کے ساتھ بھی ہم رابطہ رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

بھارت اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون کے بارے میں تجزیہ کار اے زیڈ ہلالی نے کہتے ہیں کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے تمام ہی علاقائی ممالک کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔

’’بہتر ہو گا، کہ پاکستان، افغانستان اور بھارت مشترکہ مسائل بشمول دہشت گردی کے خلاف تعاون کریں ۔۔۔۔ اقتصادی و سماجی رشتوں کو آگے بڑھائیں۔ اس سے امن کی نوید بھی بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘

XS
SM
MD
LG