افغان ’اشوز‘ پر علاقائی مشاورت کا ایک اور دور 14 اپریل کو ماسکو میں منعقد ہوگا۔ یہ بات جمعرات کے روز ماسکو میں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ ترجمان، ماریا زخارووا نے بتایا کہ’’بات چیت میں دھیان افغانستان کی سکیورٹی اور آئندہ امکانات پر مرتکز رہے گا‘‘۔
ایک اخباری بیان کے مطابق، ترجمان نے کہا کہ ’’ہمارے خیال میں، مشاورت کا اہم ہدف افغانسان میں مفاہمت کے قومی عمل کے حوالے سے ایک مشترکہ علاقائی انداز اپنانے پر ہوگا۔‘‘ اس ضمن میں، روسی ترجمان نے تسلیم کیا کہ افغانستان کا کلیدی کردار ہونا چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا کہ مسلح مخالفت کو پُرامن ماحول میں بدلنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے اب تک کے اجلاسوں میں جائزہ لیا گیا ہے، اور چند اصول مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ماریا زکارووا کے مطابق، اجلاس میں شرکت کے لیے، افغانستان، وسط ایشیائی ممالک، چین، بھارت، ایران، پاکستان اور امریکہ کو مدعو کیا گیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ’’امریکی اہل کاروں نے اس اجلاس میں شرکت اور موضوع پر بین الاقوامی گفت و شنید میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے‘‘۔
ادھر واشنگٹن میں، امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر، اعزاز چودھری نے، اس سوال پر آیا امریکہ کے بغیر افغان امن کوشیں کامیاب ہوسکتی ہیں، کہا ہے کہ ’’افغان امن کے لیے جو بھی فریق کردار ادا کرے، ہمارے لیے بہت ضروری ہے‘‘ ۔
جمعے کے روز ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی بات کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ اس قسم کے’ مکینزمز‘ (طریقہ کار) بنے ہیں، جنہیں موقع نہیں دیا گیا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’روس نے ایک میٹنگ کی تھی جس میں پاکستان اور چین بھی شریک تھے، کیونکہ انہوں نے ہمیں بلایا تھا۔ ہمارے کہنے پر انہوں نے افغانستان اور پھر سینٹرل ایشیا اور امریکہ کو بھی بلایا تھا۔ یہ ان کا اپنا initiative ہے ،جس پر وہ اپنی سمجھ بوجھ سے کام کر رہے ہیں ‘‘۔
سفیر نے کہا کہ ’’اس کے علاوہ بھی بہت سےinitiatives چل رہے ہیں۔ بہت ساری سہ فریقی اور چار فریقی اور ’سکس پلس ون‘ اجلاس ہوتے رہے ہیں۔ لیکن، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو ہم نےquadrilateral coordination’ ‘ گروپ میں پیش رفت کی تھی۔۔۔ جس میں پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین شامل تھے۔۔۔ اس معاملے کو آگے بڑھنے کا پورا موقع نہیں دیا گیا‘‘۔
چودھری اعزاز نے کہا کہ ’’چار ملکوں نے ایک ’روڈ میپ‘ بنایا او مئی کے پہلے ہفتے میں اس کی پانچویں میٹنگ ہوئی۔ لیکن، بدقسمتی سے مئی کے تیسرے ہفتے میں ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت ہوئی۔ اس کے بعد، چونکہ ادھر ہم نے ایک ملٹری آپریشن شروع کیا ہوا ہے؛ادھر سے طالبان بھی دھڑے بندی کا شکار ہو کر افغانستان چلے گئے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’زیادہ تر لوگ طالبان اور حقانی، فغانستان کے اندر موجود ہیں، جس کے اپنے مسائل ہیں‘‘ ۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اس کا عسکری حل تلاش نہ کریں، بلکہ اس کا سیاسی حل ڈھونڈیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’پچھلے سولہ، سترہ سال سے وہاں نیٹو کی اتنی فوج لگی۔ لیکن، معاملات حل نہیں ہوئے‘‘، اور بقول اُن کے، ’’چونکہ افغانستان بدامنی کا شکار رہا، اس لیے پاکستان کے لیے بھی مسائل رہے‘‘۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ ’’آج بھی سیاسی حل ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اس کے ساتھ عسکری زور لگایا جائے۔ لیکن، اصل چیز یہ ہے کہ ایک سیاسی حکمتِ عملی ہونی چاہیئے، تاکہ افغانستان میں دیرپہ امن کی بنیاد ڈالی جا سکے‘‘۔