افغان علما نے ملک میں خواتین کے تعلیم پر طالبان کی جانب سے عائد پابندی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جب کہ اہم طالبان وزیر نے ان علما کو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر خبردار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق افغانستان میں اچھی شہرت رکھنے والے دو مذہبی علما کا ہفتے کوایک بیان میں کہنا تھا کہ حکام کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
افغانستان میں اگست 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان کی پالیسیوں پر کم ہی تنقید سامنے آئی ہے۔ چند طالبان رہنماؤں نے بھی اہم فیصلے لینے سے متعلق عمل پر اعتراضات کیے ہیں۔
افغانستان میں طالبات چھٹی کلاس سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں، جب کہ جامعات میں بھی خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد ہے۔
خواتین پر عوامی مقامات پر جانے پر پابندی کے علاوہ متعدد نوکریاں کرنے پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
ایک مشہور افغان مذہبی عالم عبدالرحمٰن عابد کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کو تعلیم کے حصول کی اجازت دینی چاہیے اور ان کے لیے علیحدہ کلاسیں، خواتین اساتذہ کی بھرتی، علیحدہ ٹائم ٹیبلز اور نئی عمارتیں تعمیر کی جانی چاہیئں۔
’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو میں عبد الرحمٰن عابد کا کہنا تھا کہ علم کا حصول اسلام میں مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے جب کہ اسلام بھی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی اسکول سے غیر حاضر ہے اور انہیں اس پر شرمندگی ہے۔
ان کے بقول ان کے پاس اپنی بیٹی کے سوالوں کا جواب نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی پوچھتی ہے کہ اسلامی نظام میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ جس کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کسی بھی قسم کی تاخیر سے حکومت کمزور ہو گی۔
ایک اور مذہبی عالم تور یالی ہمت جو کہ طالبان کے رکن بھی ہیں، نے بتایا کہ وزارتوں کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کے مسئلے کو حل کر لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تنقید دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جس سے نظام تباہ ہو اور دوسری اصلاحی تنقید۔
تور یالی کا کہنا تھا کہ اسلام مرد اور عورت دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، ان کے بقول، حجاب اور نصاب پر غور کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصلاحی تنقید کی جانی چاہیے اور اسلامی امارات کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ جہاں تنقید نہیں ہو گی وہاں بد عنوانی کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ لڑکیوں کو یونیورسٹی کے لیول تک تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
دوسری طرف افغانستان میں طالبان کےقائم کردہ نگران ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وزیر ندا محمد ندیم کا کہنا تھا کہ علما کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف نہیں بولنا چاہیے۔
ندا محمد کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایک اور عالم عبدالسمیع الغزنوی نے مدرسے کے طلبہ سے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق کوئی تنازع نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی تعلیمات واضح ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم قابل قبول ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو میں ندا نے الغزنوی کو ایک معزز عالم کے طور پر مخاطب کیا۔
ندا کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ بغاوت کریں، اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟
ان کا کہنا تھا کہ اس پابندی کے خلاف بغاوت کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ اگر لوگوں کو نظام کے خلاف بغاوت کرنے کی اجازت ہو گی تو اس سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟
’اے پی‘ کے مطابق ندا مؤقف لینے کے لیے دستیاب نہیں ہو سکے، تاہم ان کے ترجمان حافظ ضیا اللہ ہاشمی نے مزید تفصیلات فراہم نہ کرتے ہوئے ان کے ریمارکس کی تصدیق کی۔
افغان طالبان نے گزشتہ ہفتے خواتین کو ملک میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر میں بھی کام کرنے سے روک دیا تھا۔ طالبان کی طرف سے اس پابندی سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
افغان طالبان خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کو عارضی معطلی قرار دیتے ہیں نہ کہ پابندی۔ لیکن مارچ میں تعلیمی اداروں میں طالبات کے بغیر ہی سیشن کا آغاز کیا گیا۔
خواتین کی تعلیم کے حصول پر عائد پابندی کی وجہ سے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔