رسائی کے لنکس

طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کے بارے میں افغان عوام کتنا جانتے ہیں؟


ہبت اللہ اخوندزادہ کو سرکاری طور پر امارت اسلامی افغانستان کا سربراہ،سپریم کمانڈر اور قرآن اور حدیث کے اسکالر کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ان کا کہا ہر لفظ اعلیٰ قانون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ طالبان حکومت ان کے کہے کوسختی سے نافذ کرتی ہے۔ کیوں کہ وہ اس حکومت کے سپریم لیڈر ہیں اور انہیں حاصل لامتناہی اختیارات کسی ضابطے یا آئین کے پابند نہیں۔

کچھ طالبان رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اخوندزادہ کو ذاتی طور پر دیکھا ہے۔ اخوندزادہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی عمر 70 سال کے آس پاس ہے۔

اخوندزادہ افغان شہریوں اور دنیا کے لیے ایک معما ہیں کیوں کہ ان کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں۔ ایک ایسا شخص اس وقت افغانستان پر حکومت کر رہا ہے جسے دیکھا نہیں گیا، منتخب نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ کسی کو جواب دہ ہے۔

میڈیا میں اخوندزادہ کی زیرگردش تصویر میں ایک لمبی سیاہ داڑھی والے شخص کو سفید پگڑی کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تصویر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 1990 میں پاسپورٹ کے لیے لی گئی تصویر تھی۔ لیکن سرکاری سطح پر کبھی اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔

مبینہ طور پر افغانستان کے صوبے قندھار میں مقیم اخوندزادہ نے رواں ماہ سرکاری زمین کی تقسیم اور فروخت پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا تھا جس سے دارالحکومت کابل میں زمینوں کا انتظام دیکھنے والی پوری ریاستی بیوروکریسی کو عملاً غیر مؤثر کردیا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت میں وزیر اور ججوں سے لے کر ضلعی ایڈمنسٹریٹر کی تقرری تک سب فیصلے ہبت اللہ اخوندزادہ کرتے ہیں۔ طالبان لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول میں تعلیم اور خواتین کو کام کی اجازت دیں گے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ بھی اخوندزادہ کے کہنے پر ہی ہوگا۔

طالبان کے ایک وزیر شہاب الدین دلاور اخوندزادہ نے ایک افغان رپورٹر کو اپنے سربراہِ حکومت کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا : " وہ سب سے پہلے اللہ سے ڈرتے ہیں۔ دوسرے وہ احادیث جانتے ہیں۔ وہ قرآن کے مفسر ہیں، وہ فقیہ ہیں۔ اس سے پہلے جہاد میں جب وہ امیر تھے تو ان کےاپنے بیٹے نے فدائی (خودکش) حملے میں جان دی تھی۔"

اخوندزادہ کے خاندان کے دیگر افراد کی طرح خود کُش حملہ کرنے والے ان کے نوجوان بیٹے کی شناخت اور حالات سے بھی لوگ واقف نہیں ہیں۔ طالبان سربراہ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ان کی دو بیویاں اور 11 بچے ہیں۔ تاہم ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ان تفصیلات کی سرکاری سطح پر کبھی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔

طالبان کے دوسرے امیر اختر محمد منصور کی پاکستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ہبت اللہ اخوندزادہ طالبان کے امیر بنے تھے۔ اپنے دو پیش رو امیروں کی طرح اخوندزادہ کو سال 2016 میں طالبان علما کی ایک کونسل نے مقرر کیا تھا۔

طالبان کا مؤقف ہے کہ کونسل کی جانب سے امیر کے انتخاب کے لیے اسلامی روایت کے مطابق بیعت کرنا ہی اس منصب کے لیے ان کی قانونی حیثیت کا جواز ہے۔

ایک اسلامی فقیہ اور نیویارک میں قرطبہ ہاؤس کے صدر امام فیصل عبدالرؤف کے مطابق ماضی میں مسلم فقہاء کہتے تھے کہ بیعت کے ذریعے امیر یا خلیفہ کو اپنے حلقے کی منظوری لینا پڑتی تھی۔

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ آج کئی جدید فقہا جمہوری الیکشن کو بیعت کے مترادف سمجھتے ہیں۔ البتہ بیعت کے علاوہ امیر کو دیگر شرائط پر بھی پورا اترنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امیر کو انصاف پسند اور متقی ہونا چاہیے۔

تاہم طالبان گورننس کے تحریری فریم ورک کی عدم موجودگی میں یہ واضح نہیں ہے کہ امیر کے عہدے کی مدت کتنی ہے؟ امیر کو کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور وہ اپنا جانشین نامزد کرسکتا ہے یا نہیں؟

طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے رواں ماہ بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہر ملک میں انتخابات نہیں ہوتے اور افغانستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔

کابل یونیورسٹی کے ایک لیکچرار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ وہ ایک سائےکی طرح ہیں۔ وہ کیوں عوام کے سامنے نہیں آتے یہ لاکھوں ڈالر کا سوال ہے۔ البتہ کچھ غلط ضرور ہے۔

افغانستان میں خواتین کے لیے اسکولز اور یونیورسٹیز کو بند کرنا، آزاد صحافت کو دبانا، سیاسی اختلافات کو جرم قرار دینا اور ملک کوعالمی میدان سے الگ تھلگ کرنے جیسے اقدامات، بڑی حد تک دیگر آمرانہ حکومتوں کی طرز کےاقدامات کی عکاسی کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف الاباما کے پروفیسر آف مینیجمنٹ پیٹر پارمس کا کہنا تھا کہ طالبان کے لیے واقعی اہم ہے کہ" وہ اپنے لوگوں کو دنیا کے دیگر خطوں میں لوگوں کی بہتر زندگیوں کے بارے میں لاعلم رکھیں جو دوسری جگہ انہیں مہیا ہوسکتی ہے۔"

ان کے بقول یہ بھی ایک اہم ضرورت ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو کسی بیرونی اور وجودی خطرے میں مبتلا رکھیں۔

دسمبر 2022 میں گیلپ کے شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق طالبان کی حکومت کے دوران افغانستان غربت کی دلدل میں دھنس گیا ہے۔ ملک کے تقریباً تین کروڑ 80 لاکھ افراد میں سے نصف سے زائد کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً تمام افغان اپنی زندگیوں کو مسائل میں گھرا ہوا قرار دیتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG