افغان طالبان کے ایک وفد نے قطر سے پاکستان کا دورہ کیا ہے، جس کا مقصد پاکستانی حکام سے طالبان کے کچھ رہنماؤں کی گرفتاری اور افغان مہاجرین کے ’’بڑھتے ہوئے مسائل‘‘ سے متعلق پاکستانی حکام سے بات چیت کرنا تھا۔
طالبان کے ایک سینیئر عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو ہفتے کو بتایا کہ ایک تین رکنی افغان وفد کو قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر سے پاکستان بھیجا گیا، تاکہ وہ اپنے تحفظات سے پاکستانی حکام کو آگاہ کر سکیں اور یہ معلومات حاصل کر سکیں کہ طالبان کے رہنماؤں کی گرفتاری کا سبب کیا تھا۔
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان معمول کے مطابق ان ملکوں کے ساتھ رابطے کرتے ہیں جن کے ساتھ افغانستان کے سفارتی تعلقات ہیں۔
"قطر سے پاکستان یہ وفد حکام کے ساتھ افغان پناہ گزینوں کے مسائل، ان کی گرفتاریوں، زبردستی بے دخلی اور ملک بدری پر بات چیت کے لیے گیا۔"
ترجمان مُصر تھے کہ حکام سے ملاقاتوں میں سیاسی امور یا افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے امکانات پر تبادلہ خیال نہیں کیا جائے گا۔
اُنھوں نے ان خبروں کی تردید کی کہ اس دورے کا مقصد دوحا میں طالبان اور افغان عہدیداروں کے درمیان خفیہ ملاقاتوں سے متعلق پاکستان کو آگاہ کرنا تھا۔
پاکستانی حکام کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
وفد میں طالبان دور حکومت کے دو سابق وزراء ملا جان محمد مدنی اور ملا عبد السلام اور پاکستان کے لیے سابق سفیر مولوی شہاب الدین دلاور شامل تھے۔
ان تینوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اُنھیں طالبان میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور بہت با اثر تصور کیا جاتا ہے۔
اسلام آباد میں افغان سفیر حضرت عمر زخلیوال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ ’’طالبان کے اس دورے سے آگاہ ہیں‘‘ لیکن اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
یہ دورہ ایسے وقت ہوا، جب رواں ہفتے کے اوائل ہی میں طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نا ظاہر کرنے کی درخواست پر بتایا تھا کہ افغانستان کے انٹیلی کے سربراہ محمد معصوم ستنکزئی نے قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر میں ستمبر اور اکتوبر کے اوائل میں طالبان سے ملاقات کی تھی، جس میں امن و مصالحت کے لیے مذاکرات کی بحالی پر بات چیت کی گئی۔
لیکن طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان خبروں کو کابل کا پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ اُن کا کوئی عہدیدار بھی نا تو ستنکزئی اور نا ہی افغان حکومت کے کسی اور نمائندے سے ملا۔
اُنھوں نے اس کے علاوہ سعودی عرب میں بھی ایسے کسی رابطے کی تردید کی تھی۔
پاکستان کے انٹیلی جنس ذرائع نے وائس آف امریکہ کو جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں بشمول دارالحکومت کوئٹہ سے طالبان کے متعدد اعلیٰ رہنماؤں کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے۔ حراست میں لیے جانے والوں میں "کوئٹہ شوریٰ" کے اعلیٰ ارکان یا اس کونسل کی قیادت، ملا احمداللہ نانی اور ملا صمد ثانی بھی شامل ہیں۔
پاکستان کی حکومت ان افغان الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی عسکریت پسندی کی درپردہ حمایت کر رہی ہے۔ اعلیٰ حکومتی عہدیدار نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتا چکے ہیں کہ طالبان کے مفرور ارکان کو "واضح پیغام" دیا جا چکا ہے اور یہ دباؤ بھی ڈالا گیا ہے کہ وہ یا تو افغان حکومت کے ساتھ امن بات چیت میں شامل ہوں یا پھر اپنے خاندانوں کے ساتھ افغانستان میں منتقل ہو جائیں۔
جمعہ کو غیرسرکاری طور پر پاکستان آئے ہوئے افغان قانون سازوں، سابق حکومتی عہدیداران اور سماجی کارکنوں سے خطاب میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تمام جنگجوؤں کے لیے ان کے ملک کا پیغام واضح ہے کہ "کوئی بھی افغانستان کو اپنے طور پر فتح نہیں کر سکتا اور امن کی کلید بات چیت میں پنہاں ہے۔"
ایک بیان میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ "ہماری خواہش ہے کہ (افغانستان کی) اتحادی حکومت اور طالبان باہمی طور پر اپنے معاملات حل کریں اور ہم اس عمل کے لیے جو مدد ہو سکے گی کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔"
انھوں نے امن عمل کے ضمن میں کابل میں پائے جانے والے اتفاق رائے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ اس سے تمام فریقین کی اس عمل میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
مشیر خارجہ نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان، طالبان کے تمام دھڑوں کو امن عمل کا حصہ بننے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے کر رہا ہے اور "ایسے اشارے ملے ہیں کہ ان میں سے اکثر اب اس عمل میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔"
اسلام آباد کا اصرار ہے کہ عسکریت پسند ان 30 لاکھ افغان پناہ گزینوں میں شامل ہیں جو پاکستان میں قانونی یا غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ حکام کی طرف سے حال ہی میں پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس جانے پر زور بھی دیا جاتا رہا کیونکہ ان کے بقول پناہ گزینوں کی بستیوں کو غیر ریاستی عناصر (پاکستان اور افغانستان کی) سرحد کے دونوں جانب دہشت گرد حملوں کے استعمال کرتے رہے ہیں۔
جنگ سے تباہ ملک افغانستان میں 15 سالہ تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں پاکستان نے طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی گزشتہ سال جولائی میں کی تھی۔ بات چیت کے اس ابتدائی دور میں امریکہ اور چین کے سفارتی نمائندے بھی شریک رہے ہیں۔
لیکن طالبان کے بانی امیر ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد بات چیت کا دوسرا طے شدہ دور منعقد نہ ہو سکا۔ جولائی کے اواخر میں اطلاع آئی تھی کہ ملا عمر دو سال قبل انتقال کر چکے ہیں۔
اس کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ابتری دیکھی جا رہی ہے۔ کابل، اسلام آباد پر یہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے افغانستان میں حملے کرنے والے عناصر کو نہیں روک رہا، تاہم پاکستانی حکام ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔