شمال مشرقی افغانستان میں خواتین کے زیرانتظام چلنے والے ایک ریڈیو اسٹیشن نے اپنی نشریات دوبارہ شروع کر دی ہیں، جسے حکام نے، رمضان کے مقدس مہینے میں موسیقی نشر کرنے کی پاداش میں ایک ہفتے کے لیے بند کر دیا تھا۔ یہ بات طالبان کے ایک اہل کار اور اسٹیشن کی سربراہ نے جمعے کے روز ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتائی ۔
صدائے بانوان، جس کا مطلب دری زبان میں ،خواتین کی آواز، ہے، 10 سال قبل صوبے بدخشاں میں لانچ کیا گیا تھا اور یہ خواتین کے زیر انتظام چلنے والا ، افغانستان کا واحد ریڈیو اسٹیشن ہے۔ اس کے عملے کے آٹھ ارکان میں سے چھ خواتین ہیں۔
بدخشاں میں اطلاعات و ثقافت کے ڈائریکٹر معز الدین احمدی نے کہا کہ اسٹیشن نے جب امارت اسلامی کے قوانین و ضوابط، کی تعمیل کرنے اور کسی بھی قسم کی موسیقی نشرنہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو جمعرات کو اسے سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی گئی۔
سٹیشن کی سربراہ ناجیہ سوروش نے کہا کہ اسٹیشن نے جب محکمہ اطلاعات و ثقافت کے عہدیداروں کو عہد نامہ دیا تو اس کے بعد، انہوں نے اسٹیشن کا دروازہ کھول دیا، اور نشریات دوبارہ شروع ہو گئیں ۔
صحافیوں کے تحفظ اور آزادی صحافت کو فروغ دینے والی ایک افغان نگراں تنظیم ،افغان جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی نے جو اسٹیشن کے دوبارہ کھلنے کے لیے ثالثی میں شامل تھی، نشریات کی بحالی کا خیرمقدم کیا۔
تنظیم نے ایک ٹویٹ میں کہاکہ اس کی کوششوں سے صدائے بانواں ریڈیو نے اپنی نشریات دوبارہ شروع کر دی ہیں ۔
وزارت اطلاعات و ثقافت اور وائس اینڈ ورچو ڈائریکٹوریٹ کے نمائندوں نے ایک ہفتہ قبل اسٹیشن کو بند کر دیا تھا۔
افغانستان کی آزاد صحافیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد فنڈز کی کمی یا عملے کے ملک چھوڑنے کی وجہ سے ،میڈیا آؤٹ لیٹس بند ہو گئے جس کی وجہ سے بہت سے صحافی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
طالبان نے خواتین کو زیادہ تر ملازمتوں میں کام کرنے سے روک دیا ہے اور ان پر یونیورسٹی کی تعلیم سمیت چھٹی جماعت سے زیادہ تعلیم پر پابندی لگا دی ہے۔ موسیقی پر سرکاری طور پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنی سابقہ حکومت کے دوران، طالبان نے ملک میں بیشتر ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات پر پابندی لگا دی تھی۔
اس خبر کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے