واشنگٹن —
افغان خواتین کے لیے’دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ‘ کی طرف سے کابل میں ایک ایسی جگہ مختص کی گئی ہے جہاں پر وہ آزادی کے ساتھ اپنی یا اپنے اردگرد معاشرے میں پھیلی کہانیوں کو لفظوں میں ڈھال سکتی ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ ان خواتین کی تحریروں کی نوک پلک سنوارنے کے لیے ٹیچرز اور ادیبوں پر مبنی ایک رضاکار ٹیم بھی موجود ہے۔
زہرہ جن کی عمر بیس برس کے لگ بھگ ہے اس پروجیکٹ کی ویب سائیٹ پر اپنی کہانی بیان کرنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ نومی بینارون جو ایک امریکی ناول نگار ہیں، کہتی ہیں، ’’زہرہ کا تعلق ایک اَن پڑھ افغان کسان خاندان سے ہے۔ جس نے اپنے خاندان اور برادری سے مختلف راستہ اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ زہرہ زندگی سے مایوسی ختم کرنے کی بات کرتی ہیں۔ اور ان کی تحریروں میں بھی یہی جھلک نمایاں ہے۔‘‘
زہرہ ایک یتیم خانے میں انگریزی کا مضمون پڑھاتی ہیں اور افغان لڑکیوں کی زندگی، تجربات اور ان کے مشاہدات کے بارے میں لکھتی ہیں۔
ماشا ہیملٹن، ایک امریکی صحافی اور ناول نگار ہیں۔ ماشا نے ’دی افغان رائیٹنگ پروجیکٹ‘ کی بنیاد 2009ء میں ڈالی۔ وہ 1999ء میں پہلی مرتبہ کابل گئی تھیں۔
ماشا ہیملٹن کہتی ہیں کہ وہ افغان خواتین سے مل کر اور انکی ہمت اور حوصلہ دیکھ کر متاثر ہوئی تھیں۔ ان کے الفاظ، ’’بعض اوقات اپنی بقاء کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنی کہانی بتائیں۔ اور بآواز ِ بلند بتائیں۔ جب آپ مختلف طریقوں سے اپنی کہانی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کس انداز میں زیادہ بہتر طریقے سے اپنی کتھا بیان کر سکتے ہیں۔‘‘ ماشا مزید کہتی ہیں، ’’ہم یہاں انگریزی نہیں پڑھاتے۔ یہاں کی خواتین اپنی استعداد کے مطابق انگریزی لکھتی ہیں۔ اور ہم اسے ٹھیک کر دیتے ہیں۔‘‘
گذشتہ تین برسوں میں، اس پروجیکٹ کا حصہ بننے والی افغان خواتین کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
سوسن پوسٹل ویٹ امریکی صحافی ہیں اور افغان خواتین کی کہانیوں اور شاعری کی نوک پلک سنوارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب ہمارے پاس تقریبا سو لکھاری خواتین ہو چکی ہیں۔ یہ سب مختلف عمروں کی ہیں۔ لکھاری خواتین میں سب سے بڑی خاتون کی عمر پینتالیس اور سب سے چھوٹی خاتون کی عمر محض چودہ برس ہے۔‘‘
سوسن پوسٹل ویٹ مزید بتاتی ہیں کہ ان خواتین کو اکثر اپنی کہانی بیان کرنے کی پاداش میں خطرے کا سامنا بھی رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’’اکثر افغان خواتین طالبان کے زیر ِ تسلط علاقوں سے گزرتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپس برقعوں کے اندر چھپا لیتی ہیں۔‘‘
سوسن پوسٹل ویٹ کے مطابق، ’’وہ محتاط ہو کراور چھپ کر لکھتی ہیں۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ان کے خاندان والے بھی ان کے کہانیاں لکھنے کو یا اپنی رائے کے اظہار کو دنیا تک پہنچانے کے اس عمل کو مناسب تصور کرتے ہوں۔ ہمارے پاس ایک ایسی لکھاری خاتون تھیں جو اسی طرح چھپ کر لکھتی تھیں۔ جنہیں صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے چار گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔ اور اس سفر میں ان کے ساتھ کسی مرد رشتہ دار کا ہونا لازم تھا۔‘‘
’دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ‘ کا آغاز انٹرنیٹ کے ذریعے کیا گیا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پروجیکٹ میں افغان خواتین کی بڑھتی دلچسپی اور تعداد کی وجہ سے ’دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ‘ کے لیے کابل میں ایک عمارت کا انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں افغان خواتین آتی ہیں، انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں اور لکھنے کے اس سفر میں ایکدوسرے کی ہمت بندھاتی ہیں۔
بیس سالہ مہناز جو گذشتہ تین برسوں سے اس گروپ سے وابستہ ہیں کا کہنا ہے کہ، ’’یہاں آکر مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس سفر میں میں تنہا نہیں ہوں اور یہ کہ ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘ مہناز نظمیں کہتی ہیں اور ان خواتین کو اپنا موضوع بناتی ہیں جنہیں مذہب اور روایات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ وہ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہیں اور ان کا خواب ناول نگار بننا ہے۔
مہناز کے مطابق ’دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ‘ نے ان کے لیے اور ان جیسی دیگر افغان خواتین کے لیے وہ دروازہ کھولا ہے جہاں سے وہ اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکتی ہیں اور تبدیلی لا سکتی ہیں۔
زہرہ جن کی عمر بیس برس کے لگ بھگ ہے اس پروجیکٹ کی ویب سائیٹ پر اپنی کہانی بیان کرنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ نومی بینارون جو ایک امریکی ناول نگار ہیں، کہتی ہیں، ’’زہرہ کا تعلق ایک اَن پڑھ افغان کسان خاندان سے ہے۔ جس نے اپنے خاندان اور برادری سے مختلف راستہ اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ زہرہ زندگی سے مایوسی ختم کرنے کی بات کرتی ہیں۔ اور ان کی تحریروں میں بھی یہی جھلک نمایاں ہے۔‘‘
زہرہ ایک یتیم خانے میں انگریزی کا مضمون پڑھاتی ہیں اور افغان لڑکیوں کی زندگی، تجربات اور ان کے مشاہدات کے بارے میں لکھتی ہیں۔
ماشا ہیملٹن، ایک امریکی صحافی اور ناول نگار ہیں۔ ماشا نے ’دی افغان رائیٹنگ پروجیکٹ‘ کی بنیاد 2009ء میں ڈالی۔ وہ 1999ء میں پہلی مرتبہ کابل گئی تھیں۔
ماشا ہیملٹن کہتی ہیں کہ وہ افغان خواتین سے مل کر اور انکی ہمت اور حوصلہ دیکھ کر متاثر ہوئی تھیں۔ ان کے الفاظ، ’’بعض اوقات اپنی بقاء کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنی کہانی بتائیں۔ اور بآواز ِ بلند بتائیں۔ جب آپ مختلف طریقوں سے اپنی کہانی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کس انداز میں زیادہ بہتر طریقے سے اپنی کتھا بیان کر سکتے ہیں۔‘‘ ماشا مزید کہتی ہیں، ’’ہم یہاں انگریزی نہیں پڑھاتے۔ یہاں کی خواتین اپنی استعداد کے مطابق انگریزی لکھتی ہیں۔ اور ہم اسے ٹھیک کر دیتے ہیں۔‘‘
گذشتہ تین برسوں میں، اس پروجیکٹ کا حصہ بننے والی افغان خواتین کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
سوسن پوسٹل ویٹ امریکی صحافی ہیں اور افغان خواتین کی کہانیوں اور شاعری کی نوک پلک سنوارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اب ہمارے پاس تقریبا سو لکھاری خواتین ہو چکی ہیں۔ یہ سب مختلف عمروں کی ہیں۔ لکھاری خواتین میں سب سے بڑی خاتون کی عمر پینتالیس اور سب سے چھوٹی خاتون کی عمر محض چودہ برس ہے۔‘‘
سوسن پوسٹل ویٹ مزید بتاتی ہیں کہ ان خواتین کو اکثر اپنی کہانی بیان کرنے کی پاداش میں خطرے کا سامنا بھی رہتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’’اکثر افغان خواتین طالبان کے زیر ِ تسلط علاقوں سے گزرتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپس برقعوں کے اندر چھپا لیتی ہیں۔‘‘
سوسن پوسٹل ویٹ کے مطابق، ’’وہ محتاط ہو کراور چھپ کر لکھتی ہیں۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ان کے خاندان والے بھی ان کے کہانیاں لکھنے کو یا اپنی رائے کے اظہار کو دنیا تک پہنچانے کے اس عمل کو مناسب تصور کرتے ہوں۔ ہمارے پاس ایک ایسی لکھاری خاتون تھیں جو اسی طرح چھپ کر لکھتی تھیں۔ جنہیں صرف انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے چار گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنا پڑتی تھی۔ اور اس سفر میں ان کے ساتھ کسی مرد رشتہ دار کا ہونا لازم تھا۔‘‘
’دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ‘ کا آغاز انٹرنیٹ کے ذریعے کیا گیا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پروجیکٹ میں افغان خواتین کی بڑھتی دلچسپی اور تعداد کی وجہ سے ’دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ‘ کے لیے کابل میں ایک عمارت کا انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں افغان خواتین آتی ہیں، انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں اور لکھنے کے اس سفر میں ایکدوسرے کی ہمت بندھاتی ہیں۔
بیس سالہ مہناز جو گذشتہ تین برسوں سے اس گروپ سے وابستہ ہیں کا کہنا ہے کہ، ’’یہاں آکر مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس سفر میں میں تنہا نہیں ہوں اور یہ کہ ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘ مہناز نظمیں کہتی ہیں اور ان خواتین کو اپنا موضوع بناتی ہیں جنہیں مذہب اور روایات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ وہ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہیں اور ان کا خواب ناول نگار بننا ہے۔
مہناز کے مطابق ’دی افغان ویمن رائیٹنگ پروجیکٹ‘ نے ان کے لیے اور ان جیسی دیگر افغان خواتین کے لیے وہ دروازہ کھولا ہے جہاں سے وہ اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکتی ہیں اور تبدیلی لا سکتی ہیں۔