کراچی میں افغانی کھانے، ان کے ذائقے اور لذت دو ممالک اور کئی قوموں کو قریب لے آئی ہے۔
کراچی میں 1979ء میں افغان پناہ گزینوں کے لیے سہراب گوٹھ کے علاقے میں 'افغان خیمہ بستی' قائم ہوئی تھی اور افغان شہری یہیں تک محدود تھے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج شہر میں 20 سے زائد علاقوں میں افغان شہری، پاکستانیوں کے ساتھ کام کرتے اور انہی کی طرح گزر بسر کرتے نظر آتے ہیں۔
بیشتر نے پاکستان قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ حاصل کرلیے ہیں۔ وہ جائیدادوں کے مالک ہیں۔ سہراب گوٹھ کی بستی میں بنا ایک عام مکان ہو یا فلیٹ، دکان ہو یا ہوٹل، سب ان کی ملکیت بن چکے ہیں۔
یہ خیال عام ہے کہ کراچی میں افغانستان کی جھلک دیکھنا ہو تو سہراب گوٹھ چلے آئیے۔ افغان ثقافت اور روایات کے حقیقی رنگوں کو پیش کرنے کے سبب ہی یہ علاقہ 'منی افغانستان' کہلاتا ہے۔ یہاں افغانی طرز کے ہوٹلز موجود ہیں۔ اردو بولنے والے ہوں، سندھ، پختون، پشتون، پٹھان، بلوچی، پنجابی یا خود افغانی، سب کو ان ہوٹلز کے روایتی کھانوں نے یکجا کردیا ہے۔
شام ہوتے ہی ان ہوٹلز پر آنے والوں کا تانتا بند جاتا ہے۔ افغانی بوٹی، کباب، دنبے کا نمکین گوشت، کابلی پلاؤ، قندھاری نان، کابلی نان، سلاد، رائتا اور سب سے بڑھ کر کوئلے کی دھیمی دھیمی آنچ پر بنا قہوہ۔۔ یہ سب خاص مشہور افغانی ڈشز ہیں جن کے ذائقے اور لذت پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کو یکجا کرنے کا سبب بنی ہوئی ہے۔
افغانی بوٹی اور کباب، مقامی بوٹی اور کباب سے اس لیے مختلف ہوتے ہیں کہ ان میں چربی کی مقدارزیادہ ہوتی ہے۔ یہاں دنبے کے گوشت کو دنبے کی چربی میں سینڈوچ کی طرح بھر کر سینکا یا گرل کیا جاتا ہے۔
افغانی نان سائز میں چھوٹے لیکن موٹے ہوتے ہیں۔ کھانے کے کچھ دیر بعد گاہکوں کو سبز چائے، نقل اور خصوصی طور پر تیار سوئٹس جن کو اردو میں 'الائچی دانہ‘ کہا جاتا ہے، کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ یہ بادام پر شکر کی کوٹنگ کرکے تیار کی جاتی ہے۔ یہ چائے ہردل عزیز ہے اور خوب پی جاتی ہے۔
ابتدا میں یہ ہوٹلز صرف سہراب گوٹھ پر ہی قائم تھے مگر اب شہر کی تمام فوڈ اسٹریٹس پر آپ کو افغانی کھانے مل جائیں گے۔ انہیں تیار کرنے والے افغان باورچی ہیں، اس لیے یہ کھانے افغانیوں کے روزگار کا بڑا سبب بنے ہوئے ہیں۔ یہ کھانے ہوٹل مالکان کے لیے سنہرا بزنس تو ہیں ہی، باورچی اور دیگر ملازمین کے لیے بھی روزگار کا اہم ذریعہ ہیں۔
ابتدا میں پاکستان آ بسنے والے افغانیوں کی اکثریت تنگدستی کا شکار تھی۔ نہ روزگار تھا نہ ملازمتیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا مالی حالات بہتر ہوتے چلے گئے۔ بیشتر نے پاکستان کو مستقل ٹھکانہ بناتے ہوئے افغانستان میں موجود اپنی زمین، جائیداد اور دیگر قیمتی سامان فروخت کرکے یہیں کاروبار شروع کردیا۔
گو کہ افغان شہری مشترکہ خاندانی نظام کے عادی ہوتے ہیں، تاہم بڑے خاندان اور فلیٹوں میں کم گنجائش کے باعث الگ ہونا پڑے تو تین یا چار فلیٹس ایسے لیتے ہیں جو برابر برابر ہوں۔ جو لوگ فلیٹس کے مالک نہیں، وہ کرایے دار کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ یہ بھی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے آج سہراب گوٹھ پر متعدد اپارٹمنٹ بلڈنگز ہیں جن میں فلیٹس کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
کراچی میں روایتی لباس میں ملبوس افغان شہری تو جا بجا ملیں گے ہی، مخصوص کلر، ڈیزائن اور اسٹائل والے سر تا پا برقعے میں لپٹی خواتین بھی آتی جاتی نظر آجائیں گی۔ یہ خواتین پردے کی بہت سختی سے پابندی کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ بے پردگی سے بچنے کے لیے غیر مردوں سے بات چیت تک نہیں کرتیں۔ ان کے نزدیک غیر مردوں سے بولنا بھی بے پردگی ہے۔
افغان مردوں کا روایتی پہناوا شلوار قمیص ہے لیکن اس کی سلائی اور بناوٹ پاکستانی شلوار قمیص سے مختلف ہوتی ہے۔ جب کہ مخصوص ویسٹ کوٹ افغانیوں کو مقامی پختونوں سے الگ اور نمایاں کرتی ہے۔