افغانستان پر امریکہ اور اس کی حلیف افواج کے حملے کے دس سال بعد ملک کی اندرونی صورتحال کے بارے میں ایک ملی جلی تصویر ابھری ہے۔ جہاں ایک طرف سماجی بہبود کے شعبوں میں بہتری نظر آتی ہے وہیں سلامتی کی صورتحال دگرگوں ہے۔ وائس آف امریکہ نے مختلف ماہرین و مبصرین سے بات کرکے ان دس سالوں میں افغانستان کے حالات کا ایک جامع خاکہ کھینچنے کی کوشش کی ہے۔
سماجی شعبے:
افغانستان میں ابھی تک سماجی شعبوں، مثلًا تعلیم، صحت، اور حقوقِ نسواں میں بہت کام ہونا باقی ہے۔ البتہ بعض مبصرین کے مطابق آج صورتحال اُس سے کہیں بہتر ہے جو دس سال قبل تھی۔
صحافی اور مشہور کتاب ’طالبان‘ کے مصنّف احمد رشید کے مطابق افغانستان میں دس سال قبل جہاں ایک لاکھ سے بھی کم بچے سکول جاتے تھے، اب ساٹھ سے ستّر لاکھ بچے سکول جاتے ہیں، ملک کے مختلف حصّوں کو ملانے کے لیے تعمیر کی جانے والی رنگ روڈتکمیل کے قریب ہے اور کابل اور دیگر بڑے شہروں میں بجلی کی فراہمی بھی پہلے کے مقابلے میں بہتر ہو گئی ہے۔
جبکہ کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ جنوبی ایشیاء کے ماہر ایشلی ٹلّس کے مطابق تعلیم ، معاشی ترقّی اور حقوقِ نسواں کے شعبوں میں افغانستان میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔
سیکورٹی:
سیکورٹی ایک ایسا شعبہ ہے جس میں افغانستان میں نہ صرف حالات خراب ہوئے ہیں بلکہ اس مسئلے کا اثر دیگر شعبہ ہائے زندگی پر بھی ہو رہا ہے۔ چونکہ امریکی و دیگر غیر ملکی افواج اور طالبان کے درمیان زیادہ تر جھڑپیں دیہی علاقوں میں ہیں اس لیے وہاں بسنے والوں کو خاص طور پر مسائل کا سامنہ ہے۔ مسٹر رشید کے مطابق دیہی آبادی کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ امریکی سپیشل فورسز رات کو ان کے گھروں پر چھاپے مارتی ہیں۔ ان چھاپوں کا بنیادی مقصد طالبان کے اہم کارکنوں اور لیڈروں کو گرفتار کرنا یا ہلاک کرنا ہوتا ہے لیکن افغان شہریوں کا الزام ہے کہ ان چھاپوں میں عام لوگ بھی ہلاک ہوتے ہیں۔
دوسری طرف حالیہ دنوں میں سابق افغان صدر برہان الدّین ربّانی کی ہلاکت ،صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی احمد ولی کارزئی کی ان کے اپنے شہر قندھار میں ہلاکت اور خود صدر کرزئی پر حملے کے ناکام منصوبے سے واضح ہے کہ موجودہ افغان حکومت کے اعلٰی عہدیدار بھی اپنے گھروں میں محفوظ نہیں۔
حقوقِ انسانی:
افغانستان میں طالبان کا دورِ حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام تھا۔ بلکہ طالبان کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، دنیا کے بیشتر ممالک کی طرف سے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ بیان کی جاتی تھی۔ اگرچہ ابھی بھی افغانستان میں دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں انسانی حقوق کا ریکارڈ بہت اچھا نہیں ہے لیکن مبصرین کے مطابق افغانستان پر حملے کے بعد اس صورتحال میں کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے، خاص طور پر حقوقِ نسواں کے حوالے سے افغانستان میں بہتری کے واضح آثار نظر آتے ہیں۔ لیکن جب سے امریکی صدر براک اوبامہ نے افغانستان سے افواج نکالنے کی بات کی ہے، خواتین کے حقوق کے سلسلے میں انسانی حقوق کی قومی و عالمی تنظیموں کو شدید خدشات لاحق ہیں۔
مسٹر ٹلّس کے مطابق یہ خدشات بے جا بھی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو یہ امکان نظر آتا ہے کہ نیٹو ممالک کی افواج کے انخلاء کے بعد حکومتِ افغانستان کے پاس اتنی طاقت ہی نہ ہو کہ وہ خواتین کے حقوق کا دفاع کر سکیں۔ اور دوسری طرف یہ خدشہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے جلد انخلاء کی کوشش میں طالبان سے مذاکرات کے دوران خواتین کے حقوق کو نظر انداز نہ کر دے۔
طالبان سے مذاکرات:
گزشتہ چند سال میں امریکہ نے افغانستان میں اپنی حکمت عملی میں واضح تبدیلی کرتے ہوئے طالبان سے مذاکرات پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ امریکی پالیسی ساز حلقوں میں اس بات کا ادراک ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے بغیر امریکہ کے لیے اوّل تو اس خطے سے نکلنا مشکل ہوگا، اور اگر وہ نکل گیا تو افغانستان میں خانہ جنگی اور بد امنی اُس سے بھی بد تر ہو جائے گی جو دس سال قبل امریکی حملے سے پہلے تھی۔ نتیجتًا ایک طرف تو ایسا ماحول پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس میں القاعدہ یا دیگر دہشت گرد گروہوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے جبکہ دوسری طرف جنوبی ایشیاء میں عدم استحکام پیدا ہونے کے بھی امکانات ہیں۔ اس خطّے میں دو ایٹمی طاقتوں کی موجود گی کی وجہ سے اس کا استحکام دنیا کے لیے بے حد اہم سمجھا جاتا ہے۔
مبصرین کے مطابق صدر ربّانی کی ہلاکت سے امریکیوں، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مسٹر رشید کے مطابق یہ مذاکرات تب تک بحال ہونا مشکل نظر آتا ہے جب تک یہ پتہ نہ چل جائے کہ صدر ربّانی کی ہلاکت میں کس کا ہاتھ تھا۔ اور اگر ان کی ہلاکت میں طالبان کی موجودہ لیڈرشپ کا ہاتھ نکلا تو پھر سوال یہ اٹھے گا کہ ایسے لوگوں سے مذاکرات کیوں کر ہوں جو آپ کی جان کے درپے ہیں۔
کارنیگی انڈاؤمنٹ کے مسٹر ٹلّس ان مبصرین میں شامل ہیں جن کے مطابق امریکہ کی خواہش اپنی جگہ لیکن طالبان کے پاس امریکہ سے بات کرنے کاکوئی جواز نہیں کیونکہ امریکہ نے پہلے ہی وہاں سے اپنی فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا ہے اور اگر طالبان انتظار کریں تو طاقت کے زور پر اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس رائے سے تمام لوگ متّفق نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ طالبان کو اندازہ ہے کہ اگر افغانستان کی قومی فوج طاقتور ہو گئی تو امریکہ کے جانے کے بعد افغان حکومت ان سے مذاکرات نہیں کرے گی بلکہ انہیں سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کے درپے ہوگی۔ جبکہ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طالبان کی نئی نسل پرانی نسل سے زیادہ سخت گیر ہے، اور وہ کوئٹہ شورٰی اور ملّا عمر کی سربراہی تسلیم نہیں کریں گے۔ اس لیے موجودہ لیڈرشپ یہ چاہے گی کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ امن قائم کرکے سیاسی بِساط کا حصّہ بن جائے۔
احمد رشید کے مطابق طالبان کو گزشتہ دس سال کی جنگ میں کافی نقصان پہنچا ہے اور ان کی لینڈرشپ، جو گزشتہ دس سال سے پاکستان میں ہے، اب واپس آنا چاہتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان اب مذاکرات کے لیے شاید اس لیے بھی تیّار ہو جائیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ پہلے کی طرح طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوبھی جائیں گے تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو انیس سو نوّے کی دہائی میں نکلا تھا۔ یعنی انہیں دنیا کا کوئی ملک تسلیم نہیں کرے گا، نہ ہی انہیں مغربی ممالک سے کوئی امداد ملے گی اور ان کے اپنے عوام بھی انہیں نا پسند کریں گے۔
مسٹر رشید کے مطابق افغانستان میں جنگ و جدل کا خاتمہ ایک ایسے سیاسی حل کے بغیر ممکن نہیں جس میں طالبان کو حصہ دار بنایا جائے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ امریکی افواج اپنی فوجی کاروائیوں میں کمی لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکی چاہتے ہیں کہ طالبان ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تو انہیں کچھ سمجھوتے کرنے ہوں گے اور طالبان اور امریکہ دونوں ہی فریقوں کو باہمی اعتماد سازی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے ۔
افغان جنگ، کامیاب یا ناکام:
اس بات کا فیصلہ کہ افغانستان میں جنگ کامیاب رہی یا ناکام اس پر منحصر ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کے ادارے کس حال میں برقرار رہتے ہیں۔
مسٹر ٹلّس کے مطابق اس جنگ کو کامیاب قرار دینے کے لیے ضروری ہوگا کہ افغانستان کی قومی حکومت ایک ایسا نظام بنانے میں کامیاب ہو جائے جس میں مرکزی حکومت کے پاس تمام اختیارات رکھنے کے بجائے صوبائی اور مقامی حکومتوں کو مضبوط بنایا جا سکے ۔ اس کے علاوہ بد عنوانی پر قابو پا یا جائے اور سب سے اہم یہ کہ افغان نیشنل فورس اس قابل ہو کہ افغانستان میں سیکورٹی کی ذمّہ داریاں سنبھال سکے۔ لیکن اب تک ان تینوں معاملات میں پیش رفت بہت سستی سے ہو رہی ہے۔
اس کے باوجود انہیں امیّد کی کرن نظر آتی ہے۔ اس کی پہلی وجہ بتاتے ہوئے مسٹر ٹلّس کہتے ہیں کہ صدر کرزئی نے اقرار کیا ہے کہ وہ تیسری دفعہ صدارتی انتخاب نہیں لڑیں گے۔ اس کی وجہ سے اگلے انتخاب میں خود بخود اقتدار کسی نئے شخص کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ امّید کی جا رہی ہے کہ انتقال اقتدار کے دوران ان آئینی شقوں پر بھی نظر ثانی کی جائے گی جن کے تحت یہ سارا عمل مکمل ہوگا۔ اور نہ صرف صدارتی سطح پر بلکہ افغانستان میں نئی لیڈرشپ اور نئے حالات کی وجہ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بھی اختیارات کی تقسیم ضروری ہوجائے گی۔
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پر امّید ہونے کی دوسری وجہ مسٹر ٹلّس یہ بتاتے ہیں کہ وہاں کی نیشنل سیکورٹی فورس میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔ اور اگرچہ مستقبل قریب میں شاید یہ فورس اس قابل نہ ہو سکے کہ اکیلے طالبان کی عسکری قوت کا مقابلہ کر سکے لیکن اس قابل ضرور ہو جائے گی کہ جو علاقے امریکی اور نیٹو افواج طالبان سے خالی کرا کر ان کے حوالے کریں، وہ تھوڑی بہت مدد سے ان علاقوں کا دفاع کر سکیں۔
اگر افغانستان میں حالات تبدیل نہ ہوئے تو مسٹر ٹلّس کے مطابق امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا کہ افغانستان میں جنگ جاری رکھے، لیکن ۲۰۱۴ کے بعد اس جنگ کی اوّلین ذمّہ داری افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کو دے دی جائے گی جبکہ غیر ملکی افواج ان کی امداد کا کام کریں گی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: