اسلام آباد —
افغانستان میں عہدیداروں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے افغان علاقے میں فائرنگ کی ہے جس سے چار شہری ہلاک اور دس زخمی ہو گئے۔
صوبہ کنڑ کے گورنر شجاع الملک جلالہ نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ واقعہ ضلع دانگام میں پیش آیا۔
"بمباری صبح سات بج کر 45 منٹ پر ریگا نامی علاقے میں شروع ہوئی جو کہ صبح ساڑھے دس بجے تک جاری رہی اس میں چار شہری ہلاک اور دس زخمی ہوئے۔"
ہفتہ ہی کو پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ سرحد پار سے شدت پسندوں نے قبائلی علاقے باجوڑ میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔
حکام کے مطابق حملہ آوروں کے خلاف گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بھی کارروائی کی گئی جس میں 16 مشتبہ شدت پسند مارے گئے۔
ادھر افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ان کے فوجی کسی بھی طرح کے حملے کا جواب دینے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لیے صوبائی قیادت کے فیصلے کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر حامد کرزئی نے ان سے دانگام میں پاکستانی ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ کے واقعے کی تفصیلات دریافت کیں اور ان کے بقول صدر نے انھیں کہا کہ افغان سرحد کے اندر ایسی کارروائی جاری رہنے کی صورت میں فوج کو جواب دینا چاہیے۔
جنرل بسم اللہ خان کا کہنا ہے کہ " اس میں کوئی شک نہیں کہ رات طالبان نے پاکستانی فوج کی چوکیوں پر حملہ کیا لیکن یہ دانگام کی سرحد کے ساتھ پاکستانی طالبان تھے۔"
پاکستانی حکام سے افغان عہدیداروں کے ان بیانات پر ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں بھی سرحد پر ایک دوسرے کے علاقوں میں گولہ باری کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کا موقف رہا ہے کہ قبائلی علاقوں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے شدت پسند بھاگ کر افغان علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور اکثر ان پر پھینکے جانے والے گولے افغان علاقے میں جا گرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں افغان فوج اور افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے سربراہ بھی شریک تھے۔
اس اجلاس میں بھی پاک افغان سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے علاوہ سرحد پر پیش آنے والے واقعات اور اس سے منسلک مسائل کے طویل المدتی حل کی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے دشوار گزار راستوں کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اس غیر قانونی آمد و رفت روکنے کو روکنے کے لیے پاکستان نے اپنی جانب کئی چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستانی حکام افغان عہدیداروں سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ بھی اپنی جانب ایسی ہی قائم چوکیوں کی تعداد کو مزید بڑھائے تاکہ جنگجوؤں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔
صوبہ کنڑ کے گورنر شجاع الملک جلالہ نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ واقعہ ضلع دانگام میں پیش آیا۔
"بمباری صبح سات بج کر 45 منٹ پر ریگا نامی علاقے میں شروع ہوئی جو کہ صبح ساڑھے دس بجے تک جاری رہی اس میں چار شہری ہلاک اور دس زخمی ہوئے۔"
ہفتہ ہی کو پاکستانی فوج نے کہا تھا کہ سرحد پار سے شدت پسندوں نے قبائلی علاقے باجوڑ میں ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا جس میں ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔
حکام کے مطابق حملہ آوروں کے خلاف گن شپ ہیلی کاپٹروں سے بھی کارروائی کی گئی جس میں 16 مشتبہ شدت پسند مارے گئے۔
ادھر افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ان کے فوجی کسی بھی طرح کے حملے کا جواب دینے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لیے صوبائی قیادت کے فیصلے کے منتظر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر حامد کرزئی نے ان سے دانگام میں پاکستانی ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ کے واقعے کی تفصیلات دریافت کیں اور ان کے بقول صدر نے انھیں کہا کہ افغان سرحد کے اندر ایسی کارروائی جاری رہنے کی صورت میں فوج کو جواب دینا چاہیے۔
جنرل بسم اللہ خان کا کہنا ہے کہ " اس میں کوئی شک نہیں کہ رات طالبان نے پاکستانی فوج کی چوکیوں پر حملہ کیا لیکن یہ دانگام کی سرحد کے ساتھ پاکستانی طالبان تھے۔"
پاکستانی حکام سے افغان عہدیداروں کے ان بیانات پر ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔
دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں بھی سرحد پر ایک دوسرے کے علاقوں میں گولہ باری کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کا موقف رہا ہے کہ قبائلی علاقوں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے شدت پسند بھاگ کر افغان علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور اکثر ان پر پھینکے جانے والے گولے افغان علاقے میں جا گرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل میں ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں افغان فوج اور افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کے سربراہ بھی شریک تھے۔
اس اجلاس میں بھی پاک افغان سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے علاوہ سرحد پر پیش آنے والے واقعات اور اس سے منسلک مسائل کے طویل المدتی حل کی تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان لگ بھگ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے دشوار گزار راستوں کو شدت پسند ایک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اس غیر قانونی آمد و رفت روکنے کو روکنے کے لیے پاکستان نے اپنی جانب کئی چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستانی حکام افغان عہدیداروں سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ بھی اپنی جانب ایسی ہی قائم چوکیوں کی تعداد کو مزید بڑھائے تاکہ جنگجوؤں کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔